اسلام آباد:سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ کیخلاف درخواست پرمختصر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے تازہ صورتحال بارے آگاہ کیا،اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جاسکتی ہے،سپریم کورٹ نے دھرنے سے متعلق درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دی۔
سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے درخواست گزار سے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں ، کیا کبھی باقی احتجاجوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟
سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کا لانگ مارچ روکنے کیلئے کامران مرتضیٰ کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ میں سماعت کی،عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کیلئے جگہ کا تعین کیاگیا ہے؟انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے، سپریم کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آدھے گھنٹے میں بتانے کا حکم دیدیا۔
درخواست گزار سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ دو ہفتے سے عمران خان کا لانگ مارچ شروع ہے،فوادچوہدری کے مطابق جمعے ہفتے کو لانگ مارچ اسلا م آباد پہنچے گا ،لانگ مارچ سے معاملات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں ، لانگ مارچ پی ٹی آئی کا حق مگر عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں ۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ لانگ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟یہ ایگزیکٹو کا معاملہ ہے ان سے ہی رجوع کریں ، غیرمعمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے، انتظامیہ کے پاس صورتحال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں ،پھر عدالت مداخلت کیوں کرے؟
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بات اب بہت آگے جا چکی ہے،پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان گئی،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے،کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے؟لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا،لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے،ایسے مسائل میں مداخلت سے عدالت کیلئے عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے،آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے، اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے ، آڈیو سچ ہے یا غلط ہے مگر اس سے امن وامان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے،کیا 25 مئی کے لانگ مارچ کے لوگوں کے پاس اسلحہ تھا؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے،کیا آپ نے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کرسکتی ہے؟
کامران مرتضیٰ نے کہاکہ بظاہر لگتا ہے انتظامیہ صورتحال کو کنٹرول نہیں کر سکتی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل ازوقت ہوگی،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آپ چاہ رہے ہیں سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ توہین عدالت کا معاملہ لارجر بنچ میں زیرالتوا ہے، جہاں فریقین نے جواب دینا ہے ، کیا آپ چاہتے ہیں یہ بنچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیرالتوا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ پی ٹی آئی 25 مئی کے جلسے کیلئے ایچ نائن گراﺅنڈ کیلئے درخواست دی گئی تھی ،انتظامیہ نے ایچ نائن گراﺅنڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی ، ایچ نائن کا گراﺅنڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا، کیا آپ اس بات سے خائف ہیں ،25 مئی والا واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے ؟۔
جستس اطہر من اللہ نے کہاکہ کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹو کے پاس وسیع اختیارات موجود ہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ کے مطابق تو ایگزیکٹو کے اختیارات تو 27کلومیٹر تک محدود ہیں ،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا عدلیہ کی مداخلت سے انتظامیہ ا ور پارلیمنٹ کمزور نہیں ہوگی؟۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہاآئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں ، کیا کبھی باقی احتجاجوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو روات میں جلسے کا کہاتھا، انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے بیان حلفی مانگا جو ابتک پر نہیں ہوا،اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی یہ معاملہ چل رہا ہے ، آدھا گھنٹہ دیں تو انتظامیہ سے معلومات لے لیتا ہوں ۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہو سکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو۔
مختصر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت پر چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے تازہ صورتحال بارے آگاہ کیا،سپریم کورٹ نے دھرنے سے متعلق درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دی،عدالت نے کہاکہ اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔