89 اقسام کے جانوروں اور پرندوں کو 4 درجات میں تقسیم کرکے سالانہ فیس مقررکی گئی ہے۔فائل فوٹو
 89 اقسام کے جانوروں اور پرندوں کو 4 درجات میں تقسیم کرکے سالانہ فیس مقررکی گئی ہے۔فائل فوٹو

’’پشاور چڑیا گھر میں تالے پڑنے کا خدشہ‘‘

محمد قاسم:
پشاور چڑیا گھر میں تالے پڑنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ مالی بحران کے باعث شہریوں کو جانور گود لینے کی پیشکش کر دی گئی ہے۔ تاہم ان جانوروں کو گھر لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ جانوروں کو 4 درجات میں تقسیم کر کے الگ الگ فیسیں مقرر کی گئی ہیں۔ کالا ریچھ، بھیڑیا، چمپینزی اور زرافہ کی ماہانہ فیس پندرہ ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ جبکہ افریقی بارہ سنگھا اور کالے ہرن کی فیس چار ہزار دو سو پچاس مقرر کی گئی ہے۔ شیر اور چیتے کی فیس سولہ ہزار چھ سو چھیاسٹھ روپے ہے۔ ایک شہری نے تیتر کو گود لے کر پانچ ہزار روپے فیس جمع کرا دی۔

’’امت‘‘ کی دستیاب معلومات کے مطابق پشاور چڑیا گھر کی انتظامیہ نے جانوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور فنڈزکی کمی کی وجہ سے شہریوں کو جانوروں کو گود لینے کی پیشکش کر دی ہے۔ تاہم گود لیتے وقت جانور حوالے نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ شہری صرف سالانہ ادائیگی کریں گے۔ پشاور چڑیا گھر کی انتظامیہ کی جانب سے شہریوں کو راغب کرنے کیلئے تیس اقسام کے جانوروں کی چار درجہ بندیاں کی گئی ہیں۔ ان میں برونز، سلور، گولڈ اور ڈائمنڈی کیٹگری شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پشاور کا چڑیا گھر انتیس ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ جس میں نواسی اقسام کے جانور اور پرندے موجود ہیں۔ یہ چڑیا گھر دو ہزار اٹھارہ میں قائم کیا گیا تھا۔ چڑیا گھر انتظامیہ کے مطابق چار درجات میں سب سے آخری درجہ برونز ہے۔ جس کی سالانہ فیس پانچ ہزار روپے اور ماہانہ فیس چار سو سولہ روپے ہے۔ جس میں ایشیائی کوئل، تیتر اور مور شامل ہیں۔ اسی درجہ میں شتر مرغ کی سالانہ فیس پندرہ ہزار اور ماہانہ فیس بارہ سو پچاس روپے مقرر کی گئی ہے۔ سلور کیٹگری کی فیس بیس ہزار سالانہ مقرر کی گئی ہے اور اس میں مکائو سمیت دیگر اقسام کے طوطے شامل ہیں۔ اسی درجہ میں پچیس ہزار روپے کی سالانہ فیس میں بندروں کی تمام اقسام کو رکھا گیا ہے۔

گولڈ کیٹگری میں ہرن، ہاگ ڈیئر، زبیرا اور ہرن شامل ہیں۔ جن کی فیس تیس ہزار روپے سالانہ ہے۔ جبکہ اسی کیٹگری میں افریقی بارہ سنگھا اور یکس، لاما، بلیو بل، کالے ہرن کی ماہانہ فیس چار ہزاور دو سو پچاس اور سالانہ فیس پچاس ہزار روپے ر کھی گئی ہے۔ ڈائمنڈ کیٹگری میں بڑے جانور میں۔ جن میں کالا ریچھ، ایشیائی بھیڑیا، چمپینزی اور زرافہ شامل ہیں۔ جن کی ماہانہ فیس پندرہ ہزار روپے اور ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ ہے۔ اسی کیٹگری میں افریقی شیر، بنگال ٹائیگر، سفید شیر اور چیتا شامل ہیں۔ جن کی سالانہ فیس دو لاکھ روپے اور ماہانہ فیس سولہ ہزار چھ سو چھیاسٹھ روپے ہے۔ تاہم پشاور چڑیا گھر انتظامیہ کے مطابق شہری جانور کو گھر نہیں لے جا سکیں گے۔ بلکہ ان کو صرف پیسے دینے ہوں گے جو آن لائن اکائونٹ میں جمع ہوں گے۔

انتظامیہ کے مطابق پشاور چڑیا گھر کے پاس فنڈز کی کمی نہیں۔ ایسا صرف شہریوں میں جانوروں سے پیار اور محبت بڑھانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں چڑیا گھر کی انتظامیہ کی جانب سے صوبائی حکومت کو ارسال کئے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا تھا کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے ملازمین نے پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں لی اور جانوروں کی دیکھ بھال بھی پیسوں کی کمی کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اب آہستہ آہستہ شہریوں نے جانوروں کو گود لینے میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کر دی ہے اور پشاورکے ایک شہری نے تیتر کو گود لے لیا ہے۔ جس کی فیس اس نے جمع کرا دی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ متعدد شہریوں کی جانب سے جانور گود لینے میں دلچسپی ظاہر کی جارہی ہے۔

اطلاعات کے مطابق پشاور کے چڑیا گھر کی جانب سے شہریوں کو جانور گود لینے کی پیشکش کے بعد گزشتہ روز اولین ثاقب الرحمان نامی شہری نے تیتر کی سالانہ فیس پانچ ہزار روپے جمع کر دی ہے۔ گزشتہ روز شہریوں کی بڑی تعداد نے تفریح کیلئے چڑیا گھر پشاور کا رخ کیا۔ جبکہ اس موقع پر ’’امت‘‘ نے چڑیا گھر آنے والے متعدد شہریوں سے جانوروں اور پرندوں کو گود لینے اور ان کی فیس دینے سے متعلق بات چیت کی۔ گاڑی خانہ کے رہائشی محمد نعمان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ لوگوں کو اس بات پر خوشی ہونی چاہیے کہ وہ ان بے زبانوں کو گود لینے کے لئے ان کی مدد کریں۔ تاہم یہ کام حکومت اور انتظامیہ کا ہے۔ حکومت نے اتنے بڑے رقبے پر چڑیا گھر تو بنوا دیا۔ لیکن اب جانوروں اور پرندوں کا خرچہ لوگوں سے مانگا جارہا ہے۔ جو بہت افسوس کی بات ہے۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے اپنے دوستوں سے بھی بات کی ہے اور جانور یا پرند ے گود لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اسی طرح چڑیا گھر آنے والی لوگوں کی بڑی تعداد نے بھی اس پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ چڑیا گھر کی انتظامیہ سے رابطے میں ہیں اور پرندوں اور جانوروں کو ضرور گود لیں گے۔ اس میں وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور یہ ایک طرف ثواب کا کام بھی ہے۔ جبکہ اس حوالے سے مخیر حضرات کو بھی آگے آنا چاہیے۔ اس سے انسان کی جانوروں سے محبت بھی بڑھے گی۔