’’کھارادرپرائزبانڈ مارکیٹ میں کریک ڈائون‘‘

عمران خان:
ملک کی سب قدیم کھارادر پرائز بانڈ مارکیٹ کو 70 سالہ تاریخ کا سب سے بڑا جھٹکا لگ گیا۔ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی کے پرائز بانڈز کی غیر قانونی خریدو فروخت کے خلاف آپریشن کے بعد کئی روز سے بند ہے۔ حالیہ کارروائیوں کے بعد اب تک تین بڑے دکانداروں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف تین مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ آپریشن کے بعد مارکیٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے درجنوں پرانے دکانداروں کے ساتھ مشاورت شروع کردی ہے۔ ایف آئی اے کا دبائو کم کرننے کے لئے اسلام آباد میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے بڑی تاجر تظیموں کے ذریعے پیغامات ارسال کئے گئے، جس کے بعد ایف آئی اے افسران کو اسلام آباد سے متعدد پیغامات بھی بھجوائے گئے۔ تاہم وزارت خزانہ کی ہدایت پر ایف آئی اے نے کارروائیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی ٹیمیں کارروائیوں میں نہ صرف دکانوں سے متعلقہ شواہد لے گئیں، بلکہ مزید تحقیقات کے لئے دکانوں پر لگے سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ بھی لے گئیں ہیں۔ تاکہ تحقیقات میں ان شہریوں کو بھی شامل تفتیش کیا جاسکے جو اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے اس مارکیٹ سے کروڑوں روپے مالیت کے پرائز بانڈز کی غیر قانونی خرید و فروخت کیلیے آتے ہیں۔ جس میں زیادہ تر سیاسی و سرکاری شخصیات کے فرنٹ مین ایجنٹوں کے علاوہ تاجروں اور متمول افراد کے ملازمین شامل ہوتے ہیں۔ مالیاتی امور کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کے سب سے پرانے تجارتی مرکزمیں اسٹیٹ بینک کے مرکزی دفتر کے عین سامنے اور ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کے دفتر کے نیچے دہائیوں سے سرگرم غیر قانونی دھندہ کرنے والی اس مارکیٹ کے تاجروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی، اتنے طویل عرصے تک اسٹیٹ بینک کے واضح قوانین کے باجود ادارے کیوں خاموش رہے؟ اسٹیٹ بینک کے قواین میں واضح ہے کہ ملک میں صرف اسٹیٹ بینک، مجاز نجی بینک اور نیشنل سیونگ کارپوریشن ہی پرائز بانڈز کی خرید و فروخت کاکام کرسکتے ہیں اس کے علاوہ کوئی بھی یہ کاروبار نہیں کرسکتا۔
حالیہ کریک ڈائون کے پس منظر کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ دو برس قبل ایف اے تی ایف ( فنانشنل مانیٹرنگ ٹاسک فورس ) کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر کرنے کیلئے جن تجاویزپر عمل در آمد کرنے کی سفارشات دی گئی تھیں، ان میں غیر دستاویزی مالیاتی لین دین کے سلسلے میں ایک ہزار، 25 ہزار،15 ہزار اور ساڑھے 7 ہزارروپے مالیت کے پرائز بانڈزکی بے نامی خرید و فروخت پر بھی تحفطات کا اظہار کیا گیا تھا۔ جس کے بعد مرکزی بینک کے حکام نے ایک ہزار، 25 ہزار، 15 ہزار اور ساڑھے 7 ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈز کے مزید اجرا کو روکتے ہوئے ان پرائز بانڈز کو ریگولرائز کرنے اور شہریوں کے ناموں پر انہیں رجسٹرڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ گزشتہ برس ایک نوٹیفکیشن کے تحت شہریوں کو آگاہ کیا گیا تھا کہ جن شہریوں کے پاس ایک ہزار، 25 ہزار،15 ہزار اور ساڑھے 7 ہزارروپے مالیت کے پرائز بانڈزموجود ہیں وہ مارچ 2022ء تک انہیں اسٹیٹ بینک کو واپس کرکے کیش کرواسکتے ہیں۔ اس مہلت کے بعد ان کی خرید و فروخت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس حکم نامے کے بعد گزشتہ کئی دہائیوں سے ماہانہ اربوں روپے مالیت کے پرائز بانڈز کی غیر قانونی خرید و فروخت کا کام کرنے والے کھارادر مارکیٹ کے دکانداروں میں ہلچل مچ گئی تھی۔ جن شہریوں کے پاس یہ پرائز بانڈز موجود تھے انہوں نے دھڑا دھڑ ان کی فروخت ایجنٹوں اور فرنٹ مینوں کے ذریعے پرائز بانڈز مارکیٹ میں شروع کی، جس کے نتیجے میں کئی برسوں سے معمول کے مطابق چلنے والے اس کاروبار میں یک دم تیزی آئی اور صرف چند مہینوں میں اربوں روپے کا کالا دھن سفید کرلیا گیا۔
ذرائع کے مطابق عمومی طور پر پرائز بانڈ ز مارکیٹ میں لگے ہوئے پرائز بانڈ 100 فیصد قیمت پر فوری فروخت ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں خریدار ہر وقت مل جاتے ہیں۔ یہی پرائز بانڈز جب شہری اسٹیٹ بینک یا دیگر مجاز بینکوں کو فروخت کرنے جاتے ہیں تو ایک جانب دو سے تین دن کے پروسس سے گزرنا پڑتا ہے اور دوسری جانب انہیں 15 فیصد کٹوتی کرکے کیش رقم دی جاتی ہے۔ چونکہ پرائز بانڈ اوپن مارکیٹ میںکالے دھن کو چھپانے کے لئے کئی شہری 5 سے 10 فیصد زائد رقم بطور کمیشن دے کر پرائز بانڈز خرید لیتے ہیں۔ اس لئے یہاں ایجنٹوں، دکانداروں اور فروخت کرنے والے شہریوں سمیت تمام فریقین کو فائدہ ہوتا ہے۔
رواں برس مارچ میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے دی جانے والی مہلت گزرنے کے بعد اچانک اس پرائز بانڈمارکیٹ میں مندی چھا گئی تھی۔ تاہم تین ہفتے قبل اچانک مارکیٹ کے دکانداروں، ایجنٹوں، سرکاری و سیاسی شخصیات کے فرنٹ مینو ں کو اس وقت ایک اچھی خبر ملی جب اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایک نئے اعلامیہ اور نوٹیفکیشن میں مختلف مالیت کے ختم کئے گئے پرائز بانڈز کی ان کیشمنٹ کے لئے شہریوں کو 7 ماہ کی نئی مہلت دے دی گئی۔ اسٹیٹ بینک کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق 40 ہزار، 25 ہزار، 15 ہزار اور ساڑھے 7 ہزارروپے مالیت کے پرائز بانڈز تبدیل کروانے کی اب آخری تاریخ 30 جون 2023ء تک ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی بینک کی جانب سے شہریوں کو مختلف آپشنز بھی دئے گئے کہ پرائز بانڈز رکھنے والے افراد پرائز بانڈز کو کیش یا رجسٹرڈ بانڈز میں تبدیل کرا سکتے ہیں پرائز بانڈز اسپیشل یا ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی پرائز بانڈز مارکیٹ میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر پرائز بانڈز کی غیر قانونی خرید وفروخت اور اربوں روپے کے کالے دھن کو سفید کرنے کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں اور ملوث دکاندار یومیہ بنیادوں پر لاکھوں روپے کی آمدنی حاصل کرنے لگے۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق کارروائی کھارادر کی بولٹن مارکیٹ میں واقع روبی سینٹر اور نیو روبی سینٹر میں کی گئی۔ سی بی سی کے عملے نے حوالہ اور ہنڈی کی خفیہ اطلاع پر تین دکانوں میں قائم دفاتر کی تلاشی لی جس کے دوران لیپ ٹاپ، کاروباری رسیدیں اور دستاویزات ضبط کر لیں۔ اہلکار جاتے ہوئے دکانوں کے سی سی ٹی وی کیمروں کے ڈی وی آرز بھی ساتھ لے گئے۔ بولٹن مارکیٹ میں کرنسی اور پرائز بانڈ کا کام کرنے والوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ دوبارہ چھاپوں اور کارروائی کے خوف سے بیشتر دکانداروں نے کاروبار بند کر دیا۔
ان مارکیٹوں میں کئی دکانیں 70 برس پرانی ہیں، جہاں کے دکاندار باپ دادا کے زمانے سے یہ کام کر رہے ہیں اور اب ان کی نوجوان چوتھی نسل نے بھی دکانوں پر بیٹھنا شروع شروع کردیا ہے۔ بعض دکانداروں کے مطابق ان کے داداسٹیٹ بینک میں آنے والے شہریوں کو باہر ہی سے پرائز بانڈ خریدنے اور فروخت کرنے پر راغب کرنے کے لئے ایجنٹ کے طور پر فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکریا بیٹھ کر کام کرتے تھے، جنہوں نے بعد ازاں کاروبار دکانوں میں منتقل کر دیا۔