سجاد عباسی
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کر کے بلاشبہ حکومت کو بڑا سرپرائز دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اگلے چند ہفتوں یا مہینوں کے لیے میڈیا کی توجہ کا مرکز بننے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں تاہم اس سیاسی دھماکے کے ذریعے "اسموک اسکرین” پیدا کرکے دراصل انہوں نے فوری یا قبل از وقت الیکشن کے اپنے کم از کم بنیادی مطالبے سے فرار کی راہ تلاش کر لی ہے جسے منوانے کے لئے انہوں نے اسلام آباد آنے کا اعلان کیا تھا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل تک عمران خان کے دو بنیادی مطالبات میں سے ایک تو پہلے ہی دم توڑ چکا ،یعنی اہم ترین تقرری کا عمل ان کی مرضی کے برعکس قانونی طریقہ کار کے تحت مکمل ہوگیا۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ اسلام آباد جلسے یا ممکنہ دھرنے کے لیے 26 نومبر کی تاریخ مقرر کرنے کے پیچھے مذکورہ تقرری سے جڑے عزائم کارفرما تھے۔ خود عمران خان سمیت سیاسی قیادت کی معاملہ فہمی کے نتیجے میں یہ تقرری متنازعہ ہونے سے بچ گئی۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت کا خیال تھا کہ راولپنڈی میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جمع کرکے وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر قبل از وقت الیکشن کا کم ازکم ایک مطالبہ پورا کرا لیں گے مگر دو صوبوں کے سرکاری وسائل بروئے کار لانے کے باوجود ناظرین کی مطلوبہ تعداد جمع نہ ہو سکی ۔ذرائع کے مطابق ایک روز قبل مقتدر حلقوں کی "نبض ” ٹیسٹ کرنے کی خاطر اسد عمر سے یہ بیان بھی دلوایا گیا کہ الیکشن کے معاملے میں فوجی قیادت کو کوئی پوزیشن لینی چاہیے تاہم دوسری جانب سے تحریک انصاف کو واضح پیغام ملا کہ اس قسم کی کوئی توقع ہم سے نہ رکھی جائے۔
سیاسی معاملات کو سیاسی میدان میں خود سیاستدان حل کریں۔ واقفان حال کے مطابق یہ صورتحال تحریک انصاف کی قیادت کے لیے پریشان کن تھی لہٰذا فیس سیونگ کی خاطر متبادل راستہ اختیار کیا گیا اور عمران خان نے صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا سرپرائزنگ اعلان کر دیا جس نے لوگوں کی توجہ قبل از وقت الیکشن سے دستبرداری کے اہم ترین مطالبے سے ہٹا دی۔
اپنی تقریر میں انہوں نے بادل ناخواستہ یہ اعلان کیا کہ بھلے الیکشن نو ماہ بعد ہی ہوں، چونکہ کامیاب تو تحریک انصاف ہی کو ہونا ہے لہذا ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ استعفوں کے اعلان سے حکومت وقتی طور پر دباؤ کا شکار ہو جائے گی تاہم اسمبلیوں سے استعفوں کے عمل کو مشاورت کے "نو من تیل” سے مشروط کر کے آسانی سے چار چھ ماہ گزارنے کا اہتمام کر لیا گیا ہے جس کے بعد الیکشن کا اعلان یا نگراں حکومت کا قیام ایک معمول کا عمل ہو گا۔ذرائع کے مطابق کچھ بعید نہیں کہ سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی پرویز الہی استعفوں یا اسمبلی کی تحلیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے مشرف کے خلاف تحریک کے دوران مولانا فضل الرحمن صوبہ سرحد (اب کے پی) کی اسمبلی سے استعفے دینے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے تھے۔
عمران خان کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کا راستہ روکنے کے لئے پی ڈی ایم تحریک عدم اعتماد کی ریکوزیشن جمع کرا سکتی ہے جس پر 20 فیصد ارکان اسمبلی کے ہوتے ہیں۔ اگر پنجاب میں نواز لیگ ایسا کر لیتی ہے تو پرویزالٰہی یہ عذر پیش کرسکتے ہیں کہ اب چونکہ تحریک عدم اعتماد کے لیے ریکوزیشن جمع ہوگئی ہے لہٰذا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن استعمال نہیں ہو سکتا، کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔خیبرپختونخوا اسمبلی تو چلیں تحریک انصاف کی قیادت کے ہاتھ میں ہے، مگر پنجاب اسمبلی کے ڈھائی تین سو ارکان سے استعفے لیتے لیتے دانتوں میں پسینہ آ سکتا ہے، پھر الیکشن سے چند ماہ پہلے اسمبلی چھوڑنے والے آئندہ انتخابات میں یقینی جیت کے لیے ٹکٹ کی ضمانت بھی مانگیں گے۔
یہ سارے عناصر پرویزالٰہی کی حکومت کو دوام بخشنے کے اسباب پیدا کریں گے۔ پاکستانی سیاست کے طالب علم جانتے ہیں کہ سیاست کو ممکنات کا کھیل سمجھ کر بوقت ضرورت خاموشی سے چوکے چھکے لگانے میں چوہدری برادران کا کوئی ثانی نہیں۔ یادش بخیر تحریک انصاف کو پیارے ہونے سے پہلے پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بنانے کی پیشکش شہباز شریف کی سربراہی میں سرگرم مفاہمتی گروپ نے ہی کی تھی۔ وہ تو بعد میں بڑے میاں صاحب نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔ سیاسی میدان میں بنتی کو بگڑتے اور بگڑی کو بنتےدیر نہیں لگتی۔ تبھی تو اسے ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے۔