غیرملکی سامان کی کلیئرنس پورٹ قاسم پر کرنے کی تجاویز دی گئیں-فائل فوٹو
 غیرملکی سامان کی کلیئرنس پورٹ قاسم پر کرنے کی تجاویز دی گئیں-فائل فوٹو

ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں 10سالہ گھپلوں کی تحقیقات

عمران خان:
ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں دس سالہ گھپلوں کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کا اربوں روپے کا نیا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد کسٹم انٹیلی جنس حکام نے زون کیلیے آنے والے غیر ملکی سامان کی کلیئرنس پورٹ قاسم پر ہی کرنے کی تجاویزاعلیٰ حکام کو ارسال کردی ہیں۔ جن میں بتایا گیا کہ پورٹ قاسم سے بغیر کلیئرنس کے ٹرانزٹ پر جب سامان کے کنٹینرز ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں جاتے ہیں تو راستے میں یا تو سامان نکال کر تبدیل کردیا جاتا ہے یا پھر کنٹینر ہی غائب کردیئے جاتے ہیں۔ ایسی کئی وارداتوں کی تفتیش مکمل کی جا چکی ہے۔ جبکہ ٹریکنگ سسٹم پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور اس کو فوری درست کرنے کی سفارشات ارسال کی گئی ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصولہ معلومات کے مطابق کسٹم انٹیلی جنس نے ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کے ایک بڑے اسکینڈل کا سراغ لگاتے ہوئے ایسی وارداتوں میں ملوث کمپنیوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کیلئے انکوائریاں شروع کردی ہیں۔ یہ چھان بین ان کمپنیوں کے خلاف کی جا رہی ہے۔ جنہوں نے گزشتہ 10 برسوں میں ایکسپورٹ کے نام پر رعایتی ڈیوٹی پر اربوں روپے کا خام مال بیرون ملک سے در آمد کیا۔ تاہم ان برسوں میں ان کمپنیوں کی جانب سے ایک پیسے کی مصنوعات برآمد نہیں کی گئی۔ جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔

تحقیقات میں مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے ایکسپورٹ مصنوعات تیار کرنے کے نام پر منگوائے گئے سامان کی مقامی مارکیٹ میں کمرشل نرخوں پر فروخت کے حوالے سے بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ جو اسمگلنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ جس کیلئے ان کمپنیوں کے ساتھ لین دین کرنے والی مقامی کمپنیوں کے مالکان اور عہدیداروں کی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے ریکارڈ کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ تاکہ ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کی دفعات کے تحت مقدمات درج کرنے کے بعد ان کے چالان میں اینٹی منی لانڈرنگ کے تحت بھی کارروائی کو شامل کیا جاسکے۔ ان کمپنیوں میں الحمد ٹیکسٹائل ملز پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی، یونین انٹر پرائز پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی، لائبہ انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی، سوئز پیکیجنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی اور سی وائے ایم اے انٹر پرائزز پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے مالکان اور عہدیدار شامل ہیں۔ اس اسکینڈل پر ڈائریکٹر انٹیلی جنس کراچی خلیل یوسفانی کی نگرانی میں ڈپٹی ڈائریکٹر توصیف امان گورچانی کی ٹیم نے مزید چھان بین کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جس کے بعد مقدمات تیار کرنے کیلئے تفتیشی افسران کو رپورٹیں سپرد کی جا رہی ہیں۔
کسٹم حکام کے مطابق اسی نوعیت کا اسکینڈل کچھ عرصہ قبل سامنے آیا تھا۔ جس میں ایکسپورٹ پروسسنگ زون اتھارٹی کراچی میں اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے اسکینڈل کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں قائم کمپنیوں کو لاعلم رکھ کر ان کے ناموں پر سامان کی در آمد کی این او سی جاری کرکے اسمگل کی گئی۔ اس کیلئے ایک ہی نمبر کے دو دو کنٹینرز استعمال کئے جاتے رہے۔ ایک کنٹینر میں اسمگلنگ کا سامان ایکسپورٹ پروسسنگ زون سے باہر نکال کر مقامی مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا تھا اور اسی نمبر کے دوسرے کنٹینر میں کباڑ بھر کر اسے برآمد کرکے خانہ پری کی جاتی تھی۔ اس دھندے کیلئے رجسٹریشن نمبر TLE-027،JT-5103 اور JU1690 کے ٹرالر استعمال کئے جاتے رہے۔

ذرائع کے مطابق جعلسازی کیلئے قائم کردہ کمپنیوں کے ذریعے گزشتہ 8 برسوں سے کام کیا جا رہا تھا اور ریکارڈ کے مطابق ان کمپنیوں کے نام پر اس دوران ایکسپورٹ کے سامان سے لدے ہوئے 85 کنٹینرز کی اسمگلنگ کی گئی۔ جس میں حیرت انگیز طور پر سیکورٹی کے انچارج کی جانب سے ہر کنٹینر کے زون میں داخلے اور باہر نکلنے کو رجسٹرڈ کے ریکارڈ میں انٹری کرکے ظاہر کیا گیا۔ تاہم فزیکلی یہ کنٹینرز نہ تو زون میں آئے اور نہ باہر گئے۔ بلکہ بندرگاہ سے آنے کے بعد باہر ہی سے دیگر گوداموں میں منتقل کئے جاتے رہے۔ جہاں سے انہیں مقامی مارکیٹ یعنی ٹیرف ایریا میں سپلائی کیا جاتا رہا۔ ذرائع کے بقول ایکسپورٹ پروسسنگ زون کراچی میں کمپنیوں کے مالکان، منیجرز، ٹھیکیداروں اور کباڑیوں پر مشتمل اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے نیٹ ورک کے خلاف تحقیقات میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے پتہ لگایا گیا کہ ایکسپورٹ پروسسنگ زون اتھارٹی کراچی میں قائم کردہ کمپنیوں کے نام پر ممنوعہ اشیا کی اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کیلئے جعلسازی اور دھوکہ دہی کی تمام حدیں پار کی گئیں۔

اسمگلنگ کا سامان منگوانے کیلئے زون میں قائم ایسی کمپنیوں کے کوائف اور دستاویزات استعمال کئے جاتے رہے۔ جن کے مالکان اور انتظامیہ کو علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کی کمپنیوں کے نام پر بیرون ملک سے سامان منگوایا جا رہا ہے۔ اس کیلئے ایسی کمپنیوں کے کوائف اور دستاویزات کے علاوہ ایکسپورٹ پروسسنگ زون اتھارٹی کراچی سے منظوری یعنی این او سی ادارے کے متعلقہ افسران کو بھاری رشوت دے کر لی جاتی تھی۔ کیونکہ ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں قائم 300 کے لگ بھگ صنعتی یونٹوں میں سے جو بھی کمپنی بیرون ملک سے خام مال منگواتی ہے۔ اس کو ہر کھیپ کیلئے ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے شعبہ فیسلی ایشن کے افسران سے این او سی درکار ہوتی ہے۔ اس این او سی پر ہی ایکسپورٹ پروسسنگ زون کیلئے آنے والے سامان کے کنٹینرز کو بندرگاہوں سے کلیئرنس ملتی ہے۔

ذرائع کے مطابق ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں قائم صنعتی یونٹ چونکہ ایکسپورٹ کا سامان تیار کرنے کے مینو فیکچرنگ یونٹ ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی جانب سے بیرون ملک سے منگوائے گئے خام مال پر انہیں ٹیکس پر چھوٹ ملتی ہے۔ تاہم اس خام مال سے تیار ہونے والا سامان ہر صورت بر آمد کرنا ہوتا ہے۔ یہ سامان مقامی مارکیٹ میں ہر گز فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا ہو تو یہ اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ پورٹ قاسم کی بندرگاہ پر آنے کے بعد اس سامان کے کنٹینرز کو زون روانہ کردیا جاتا ہے۔ جہاں پر موجود کسٹم اپریزمنٹ کے افسران اس کی چھان بین کرکے کلیئرنس دیتے ہیں۔ تاہم بندرگاہ سے زون تک آنے کے دوران اسمگلنگ کے واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔