نواز طاہر
پنجاب اسمبلی میں جب ہر کوئی کہیں نہ کہیں متحرک دکھائی دیتا ہے اور ایک ایک ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے تو اس میں ایک آزاد ووٹ قطعی خاموشی کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔ یہ ووٹ سابق وفاقی وزیر داخلہ اور سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان کا ہے جنہوں نے تاحال پنجاب میں ہونے والی تبدیلیوں کے کسی مرحلے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور ابھی تک کسی’’بڑے‘‘ جانب سے اس ووٹ کیلئے کسی رابطے کی تصدیق بھی نہیں ہوئی۔ لیکن ایسی اطلاعات ہیں کہ باوقار طریقے سے باوقار ذمہ داری ملنے کی صورت میں ان کی جانب سے کوئی اہم کردارادا کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان گزشتہ عام انتخابات میں اپنے آبائی حلقے سے قومی اسمبلی کی نشست ہارگئے تھے۔ لیکن پنجاب اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی تھی اور الیکشن کے بعد الیکشن سے پہلے جیسی سیاسی سیاسی صورتحال برقرار ہنے پر وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ جبکہ ان کے بارے میں ابتدائی دنوں میں پی ٹی آئی میں جانے کی افواہیں بھی چلتی رہی تھیں۔
انہوں نے واضح کیا تھا کہ مسلم لیگ ن انہون نے نہیں چھوڑی البتہ الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا تھا، مگر اپنی جماعت مسلم لیگ ن سے اختلافِ رائے کے باعث یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کرکے پی ٹی آئی میں اہم ذمہ داریاں لے رہے ہیں۔ مگر عثمان بزدار کے ویراعلیٰ بننے سے یہ خیال دم توڑ گیا تھا۔ پنجاب اسمبلی کی اب تک کی مدت کے دوران چودھری نثار علی خان نے اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے ماسوا کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا، جبکہ ان کے حلف اٹھانے کے وقت بھی مسلم لیگ ن کی حکومت اور اس وقت کے اسپیکر چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے انہیںدل گرفتہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اور جب رواں سال پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک اور اسمبلی میں محاذ آرائی عروج پر تھی تو بھی چوہدری نثار علی خان کسی کا حصہ نہیں بنے تھے ۔
موجودہ صورتحال میں چودھری نثار علی خان سے رابطے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ اپنے حلقے کے کارکنوں کے ساتھ مصروفیت کے باعث گفتگو سے گریزاں پائے گئے۔ تاہم ان کے قریبی حلقوں نے بتایا کہ چودھری نثار علی خان نے ابتدا میں کچھ روز تک آرام کرنے کے بعد خود کو اپنے حلقہ انتخاب کے عوام تک محدود کرلیا تھا اور میڈیا کے سامنے آکر گفتگو سے بھی گریز کیا۔ یہاں تک کہ اپنے حلقے میں جلسوں میں تقاریر کے بھی پریس ریلیز جاری نہ کیے اور میڈیا کی تشہیر سے خود کو الگ کرلیا اور حلقے میں سرگرمیاں جاری رکیں۔ ان ذرائع کے مطابق نواز شریف اور چودھری نثار علی خان میں بنیادی اختلافات معروضی حالات میں سیاسی دانشمندی کے معاملے پر ہوئے تھے، کوئی لڑائی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن ن لیگ کے اندر کچھ لوگوں نے اختلافِ رائے کو اور رنگ دیا اور یہ اختلاف رائے فاصلے میں بدل گیا یہان تک کہ چوہدری نثار علی خان نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مگر ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں نے مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ذرائع بتاتے ہیں کہ ممکنہ طور پر چودھری نثار کا گمان تھا کہ اسٹییلبشمنٹ مسلم لیگ ن کے بارے میں اس وقت کی ن لیگ کی پالیسی کے مطابق سخت رویہ رکھے گی اور مشکلات پیدا کرے گی تو الیکشن کے بعد وہ سیاسی حالات سدھارنے میں ماضی کی طرح کوئی کردار ادا کرسکیں گے۔ لیکن ن لیگ کے اندر شامل کچھ لوگوں اور بعض غیر مناسب سخت فیصلوں نے یہ فاصلے بڑھا دیئے۔
ان ذرائع کے مطابق چودھری نثار علی خان کا نواز شریف کو مشورہ تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لامحدود محاذ آرائی کا راستہ اختیار نہ کریں اور سیاسی دانشمندی کے ساتھ معاملات کو سلجھائیں۔ لیکن نوازشریف نے اس تجویز کو درست نہ سمجھا۔ لیکن اب بہت سا وقت گذرنے کے بعد جماعت اسی راستے پر چل چکی ہے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ چودھری نثار علی خان اور مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت میں کوئی ذاتی بغض اور عناد نہیں، سیاسی اختلاف رائے تھا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ قیادت کے رابطے کی صورت میں چودھری نثار علی خان کیا قدم اٹھاسکتے ہیں؟ لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ وہ مسلم لیگ ن سے علیحدہ نہیں ہوئے، یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ اگر لیگی قیادت سے اختلافِ رائے ختم ہوجاتا ہے اور کوئی ذمہ داری ملتی ہے تو شائد چوہدری نثار علی خان اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ وہ موجودہ سیاسی اور معاشی حالت پر رنجیدہ ہیں اور صرف دیکھ رہے ہیں کہ ہوکیا رہا ہے اور اپنے الیکشن کی تیاری کررہے ہیں۔ سیاست سے کنارا کشی نہیں کی اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتے ہیں، بلکہ کسی وقت بھی قومی دھارے میں متحرک ہوسکتے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق چودھری نثار علی خان نے اپنا ٹوئٹر اکائونٹ بھی فعال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن ابھی وہ فعال نہیں کیا گیا جو کسی وقت بھی فعال ہوسکتا ہے۔