ندیم بلوچ:
مغربی ممالک کی جانب سے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود قطر ورلڈکپ سب سے زیادہ دیکھے جانے والا ایونٹ بن چکا ہے۔ اس بار خلیجی ملک میں ہونے والے میگا ایونٹ کی خوبصورتی نئے تعمیر شدہ عالیشان اسٹیڈیمز اور لاکھوں کی تعداد میں آنے والے سیاحوں کی بہترین مہمان نوازی سمیت فقید المثال انتظامات تھے۔ جبکہ شائقین کیلیے سستی رہائش، مفت ٹرانسپورٹ سسٹم بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔
ایونٹ اب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے اور گزشتہ روز کوارٹر فائنل کے انتہائی اعصاب شکن مقابلوں نے دنیا بھر کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ایونٹ کے آغاز سے لیکر اب تک قطر انتظامیہ کے بہترین انتظامات کے سبب فیفا کی تجوریاں بھر چکی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ سیمی فائنل کِک آؤٹ سے قبل پورے ایونٹ میں اب تک فیفا انتظامیہ کو حیران کن طور پر دس بلین ڈالر سے بھی زائد منافع ہوچکا ہے۔ جبکہ ایونٹ کے اختتام تک یہ حجم دگنا ہونے کی بھی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کوارٹر فائنل میں دو پنالٹی شوٹ آؤٹ نے ایونٹ چار چاند لگا دیئے۔ ان میچز کی لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے ایک ہی روز اضافی 1 اعشاریہ 7 بلین ڈالر کی ویورشپ کی مد میں گیٹ منی حاصل ہوئی۔ یعنی ان دو میچز کو دنیا بھر میں ایک ارب 45 کروڑ سے زیادہ عوام نے مختلف سائٹس اور ٹی وی چینلز کے ذریعے دیکھا۔ دوسری جانب قطر میں منعقد فٹبال ورلڈکپ پر تنقید کرنے والے مغربی اتحاد کو اب سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس سے قبل یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ مغربی ممالک کی جانب سے قطر پر اعتراضات کے بعد ورلڈکپ کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ تاہم قطر ورلڈکپ کی کامیابی کے حوالے سے انٹرنیشنل میڈیا سے آنے والے اعداد وشمار پر یورپی ممالک کو سبکی ہوئی ہے۔ اس ایونٹ کو اب الکحل فری ایونٹ کا نام دیا گیا ہے۔
اعداد و شمار سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گروپ اسٹیج کے اختتام تک قطر اس ورلڈکپ کو بخوبی کرانے میں کامیاب رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گروپ اسٹیج کے اختتام تک کھیلے گئے 48 میچوں میں ڈھائی لاکھ کے قریب شائقین میچ دیکھنے گراؤنڈ آئے، جوکہ 2018ء کے گروپ اسٹیج میں آنے والے شائقین کی تعداد سے زیادہ ہے۔ جبکہ گزشتہ سے پیوستہ روز کوارٹر فائنل میچز میں دونوں ہی اسٹیڈیم فل پیک ہوچکے تھے، جس میں اکثریت کی تعداد غیر ملکی تماشائیوں کی تھی۔ کوارٹر فائنل مقابلوں میں 89 ہزار کے قریب شائقین موجود تھے، جو 1994ء کے بعد فیفا ورلڈکپ کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ کثیر تعداد میں شائقین کی موجودگی کی وجہ سے گراؤنڈ کے ماحول میں بھی جوش و خروش دیکھنے میں آیا ہے۔ قطر میں جاری ورلڈ کپ کی ایک اہم بات فیفا فین فیسٹیول بھی ہے، جو شائقین کیلئے روز لگایا جاتا ہے۔ اس میلے میں میچ کی اسکریننگ، کنسرٹ، کھانے اور کھیلوں کے مختلف اسٹال اور شائقین کے لطف کیلیے مختلف اسٹال موجود ہوتے ہیں۔ فیفا فین فیسٹیول میں ابھی تک دس لاکھ سے زائد شائقین آچکے ہیں۔ فیفا کی تاریخ کا یہ پہلا ورلڈکپ ہے، جس میں ناک آؤٹ مرحلے میں تمام براعظموں کی ٹیمیں پہنچیں۔ فیفا ورلڈکپ کی تاریخ میں یہ دوسری بار ہوا ہے کہ دو افریقی ٹیمیں (سینیگال اور مراکش) ناک آؤٹ راؤنڈ میں پہنچیں۔ جبکہ مراکش نے اسپین کو شکست دیکر ایشیائی ممالک میں فٹبال کریز کو مزید بھڑیا۔
فیفا ورلڈ کپ کے لیے آئے غیر ملکی شائقین کی تعداد کی بات کی جائے تو قطر میں غیر ملکیوں کی سب سے بڑی تعداد ہمسایہ ملک سعودی عرب سے آئی ہے۔ اس کے بعد بھارت، امریکہ، برطانیہ اور میکسیکو کے شائقین ہیں۔ اب تک ان کی تعداد کچھ اس طرح ہے: سعودی عرب 77 ہزار، بھارت 57 ہزار، امریکہ 36 ہزار، برطانیہ 31 ہزار، میکسیکو 25 ہزار۔ اعداد و شمار کے مطابق اس ورلڈکپ کے کئی میچز کو شائقین کی بڑی تعداد نے دیکھا ہے، جوکہ کسی اور ٹی وی مواد کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔
اس حوالے سے برازیلی خاتون صحافی اینا سیشلاگ کا کہنا ہے ’’بالکل میرے خیال میں قطر ایک کامیاب ورلڈ کپ کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے، انہوں نے بہت محنت اور پیسہ لگایا ہے۔ میرے خیال میں یہ جو اعداد سامنے آئے ہیں یہ اس تمام سرمایہ کاری کا نتیجہ ہیں‘‘۔ ادھر فیفا کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اس ورلڈ کپ میں شائقین، ٹیمیں اور میڈیا منفرد ثقافت، ماحول اور ہموار آپریشنز سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں ایک اور تاریخ بھی رقم ہوئی۔ اسٹیفنی فریپارٹ نے پہلی بار نیئوزا بیک کیرن ڈیاز مینڈینا کے ساتھ کسی بھی فیفا ورلڈ کپ کے میچ میں بطور خاتون ریفری ذمے داری ادا کی۔
فیفا کے مطابق یہ 1930ء میں افتتاحی ایڈیشن کے بعد سے اب تک کا سب سے بھرپور فیفا ورلڈ کپ رہا ہے۔ شائقین، ٹیموں اور میڈیا کے نمائندوں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے، جس میں روزانہ کئی میچوں اور تفریحی سرگرمیوں میں شرکت کے آپشن موجود ہیں۔ گروپ مرحلے کے دوران دوحہ میٹرو اور لوسیل ٹرام نیٹ ورکس نے 9 ملین 19 ملین سفر کیے، روزانہ اوسطاً 7 لاکھ 7 ہزار سے زائد مسافر ان پر آتے جاتے ہیں۔