نواز طاہر:
تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنمائوں میں مختلف امور پر اختلافِ رائے موجود ہے۔ جس میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے حوالے سے بھی جزوی طور پر اختلافات ہیں۔ صدر عارف پی ٹی آئی کے نکتہ نظر سے ہی بات کرتے ہیں۔ تاہم وہ پارٹی کے مفاد میں اپنی جماعت کے ساتھ ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ بھی افہام و تفہیم کے ساتھ چلنے کیلئے کوشاں ہیں۔ لیکن اس میں ریاستی امور کو ترجیح حاصل ہے۔ جس سے وہ اپنی پارٹی قیادت کو بھی آگاہ کر چکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پارٹی کے اندر ان کے اس نکتہ نظر کو پارٹی کی سیاست سے باغی قرار دیا جارہا ہے۔
صدر علوی اسمبلیوں کی تحلیل سمیت بعض فیصلوں کے حوالے سے عمران خان کے بارے میں کوئی گارنٹی دینے کی پوزیشن میں نہیں اور اس کا وہ اظہار بھی کر چکے ہیں کہ عمران خان کسی وقت بھی کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں صدر عارف علوی پی ٹی آئی چیئرمین کے ہر فیصلے کی تائید کر رہے ہیں اور پارٹی ڈسپلن کی بھی پابندی کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ بعض اوقات بحیثیت صدر اپنی ذمہ داری کے برعکس بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ لیکن پارٹی کے اندر ان کے ریاستی امور کی انجام دہی کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدرِ مملکت کو بھی پنجاب اور خیبرپختون کی صوبائی حکومتوں کے سربراہان کی طرح کھل کر ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ جو صرف تحریک انصاف کے مفاد میں ہوں۔ پارٹی کے درمیانے درجے کے رہنمائوں میں صدرِ مملکت کے حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتوں اور بیک ڈور رابطوں کے حوالے سے ملاقات پر تحفظات ہیں اور وہ تنقید بھی کرتے ہیں۔ لیکن خود عمران خان نے ان رابطوں کے حوالے سے خاموشی اختیار کی ہے۔
پی ٹی آئی کے اہم ذرائع کے مطابق عمران خان کو ان رابطوں پر تحفظات نہیں لیکن ان کی کارکردگی کو تسلی بخش نہیں سمجھتے، کہ بحیثیت صدر مملکت مرکزی حکومتی اتحاد کو تاحال نئے الیکشن کی تاریخ کے پی ٹی آئی کے مطالبے کے حوالے سے وہ کوئی پیش رفت نہیں کر سکے اور نہ ہی تاحال مقتدر قوتوں کو اس معاملے میں قائل کرنے کیلئے کوئی کردار ادا کر سکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق صدر عارف علوی نے عمران خان کو پارٹی کے اتحادی چودھری پرویز الٰہی کے فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کے مشورے پر عمل کرنے پر بھی قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس پر عمران خان نے شرط عائد کر رکھی ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی قیادت سے جلد از جلد الیکشن کی تاریخ لیں۔ زیادہ دیر تک انتظار کرنا پارٹی کے بیانیے اور مفاد کے برعکس ہے اور خاص طور پر ایسے حالات میں، جبکہ پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو ریلیف دیا جارہا ہے اور راستے صاف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
صدر مملکت کے دیرینہ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی کو صرف پی ٹی آئی کا کارکن سمجھنا غلطی ہوگا۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر بھی ہیں اور ان کی ریاستی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اس حیثیت سے ملکی معیشت اور دیگر امور کو سامنے رکھتے ہوئے ہی وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق اگر صدر کی حیثیت اور کردار کو سمجھنا ہو تو جنرل پرویز مشرف کے ’’کو‘‘ اور اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ جب ساری قیادت جیلوں میں قید کر دی گئی تھی اور صدرِ مملکت اپنے ریاستی فرائض انجام دے رہے تھے۔
ان ذرائع کے مطابق ان کی ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات تو نہیں ہوئی۔ لیکن رابطے میں رہنے والے دوستوں نے تصدیق کی ہے کہ صدرِ مملکت ان دنوں سیاسی عدمِ استحکام میں کمی کیلئے اپنی کوششیں کر رہے ہیں اور ایک ہی وقت میں کئی ’کارنرز‘ سے رابطے میں ہیں۔ جن میں پی ڈی ایم بھی شامل ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے چار ملاقاتیں بھی اسی ضمن میں ہیں۔ ان ملاقاتوں میں تاحال کوئی معاملہ اپنے حتمی مراحل کی طرف نہیں بڑھ سکا۔ تاہم ریاستی امور میں بہتری کی کوششوں میں ضرور پیش رفت ہوئی ہے اور اس کا عالمی سطح پر مثبت اثر پڑا ہے۔
’اہمیت‘ کے حامل بعض ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملک میں سیاسی استحکام کے حوالے سے صدرِ مملکت کا کردار اہم ہے۔ وہ اب تک اپنے منصبی تقاضوں کے مطابق بطریقِ احسن چل رہے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اسمبلیوں کی فوری تحلیل نہیں ہوگی۔ ادھر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ذرائع نے بھی بتایا ہے کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سیاسی استحکام کی کچھ نہ کچھ کوشش کر رہے ہیں۔ جو ان کے منصب کا تقاضا ہے۔ لیکن صدارتی ذمہ داریوں سے زیادہ وہ پارٹی کی تابعداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر امتحان کا کوئی وقت آیا تو ممکنہ طور پر صدرِ مملکت ریاست کا ساتھ دیں گے۔ تاہم صدر کے پرانے ساتھی اس پر متفق نہیں۔
دوسری جانب صدر مملکت سے چار ملاقاتیں کرنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر سے سیاسی گفتگو ضمناً ہوتی ہے۔ زیادہ تر معاشی معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں اور انہیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ ملکی معیشت اس وقت کہاں کھڑی ہے اور عالمی ادارے پاکستان میں سیاسی صورتحال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ جبکہ ان اداروں کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار نے صدرِ مملکت سے ہونے والی کسی بھی قسم کی سیاسی گفتگو شیئر نہیں کی اور نہ ہی وہ اس ضمن میں کسی سے کوئی بات کر رہے ہیں۔