احمد خلیل جازم:
گزشتہ دنوں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی فیصل مسجد کے مرکزی ہال میں خواتین کی نماز پر پابندی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا بھرکی مساجد میں مناسب اسلامی لباس اور سر ڈھانپ کر خواتین کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ لیکن فیصل مسجد کے مرکزی ہال میں خواتین کیلئے نماز کی علیحدہ جگہ نہیں اور نہ داخلے کی اجازت ہے۔ ضعیف اور بیمار خواتین کو لفٹ نہ ہونے کی وجہ سے دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا میری رائے میں خواتین کو مرکزی ہال میں مخصوص جگہ پرنماز ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔
اس حوالے سے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ قرآن و سنت کی رو سے عورتوں کا مساجد میں جانا اور نماز ادا کرنا ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ بعض علما کے نزدیک آپ ﷺ نے خواتین کے مسجد کے بجائے گھر میں نماز ادا کرنے کو پسند فرمایا ہے۔ لیکن مسجد آنے سے منع نہیں فرمایا۔ واضح رہے کہ فیصل مسجد میں دعوۃ اکیڈیمی نے خواتین کے لیے ایک گیلری نماز کی ادائیگی کے لیے مخصوص کر رکھی ہے۔ جب کہ خواتین کا مرکزی ہال میں داخلہ ممنوع ہے۔ جب کہ صدر مملکت عارف علوی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ضعیف اور بیمار خواتین کو ہال میں ایک مخصوص جگہ پر نماز ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تاکہ انہیں کم سے کم تکلیف ہو۔
اس حوالے سے مفتی تنویر احمد احرار نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جہاں تک خواتین کا مسجد میں آنے کے معاملہ ہے، اس میں بہ نفسہ تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ قرآن کریم نے عورتوں کے لیے جو قانون قرار دیا ہے وہ پارہ نمبر 22 میں سورہ احزاب آیت نمبر 73 میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی۔ اور نماز قائم رکھو اور زکواۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو‘‘۔ یعنی عورتیںگھروں میں رہیں اور نماز ادا کریں۔ لیکن ان کا مسجد میں جانا قطعی ممنوع نہیں ہے۔ اگر آ جاتی ہیں تو ان کے لیے انتظام کر لیا جائے، اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت کا معاملہ نہیں ہے۔ لیکن آج کل جو فساد کا دور ہے، اس میں آنکھوں کے پردے کا خیال ممکن نہیں ہوتا۔
اس صورت میں علمائے کرام احتیاط کی جانب راغب فرماتے ہیں۔ وگرنہ یہ کہنا کہ مسجد میں عورتوں کا بالکل ممنوع ہے، یہ قطعی مسئلہ نہیں ہے۔ حضور کریم ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں خواتین مسجد آتی تھیں۔ بعد کے ادوار جس میں حضرت عمرؓ کا زریں دور شامل ہے، اس میں عورتوں کو با جماعت ادا کرنے سے منع فرما دیا گیا تھا اور گھر میںنماز پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی۔ حدیث شریف میں یہی ہے کہ عورتیںگھر کے ایسے مقام پر نماز ادا کریں جہاں پردے کا زیادہ اہتمام ہو، یعنی کسی چھپی ہوئی جگہ نماز ادا کریں۔ ان پر کسی نا محرم کی نظر نہ پڑے، یہ نہیں ہے کہ نظر پڑنے کی صورت میں نماز ادا نہیں ہوگی، نماز پھر بھی ادا ہوجائے گی۔ مگر خواتین کی طہارت، پاکیزگی اور ان کے احترام میں یہ احکامات دئیے گئے ہیں۔
اب صدر پاکستان کا یہ کہنا کہ فیصل مسجد کے مرکزی ہال میں عورتوں کو اجازت دی جائے، تو بالکل اجازت ہونی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے ایک جگہ کا الگ سے تعین کرلیا جائے، جس میں مسجد کا تقدس بھی پامال نہ ہو۔ ضروری ہے کہ خواتین کے لیے وضو خانہ الگ ہو، راستہ الگ ہو اور نماز کی جگہ بھی بالکل الگ ہو۔ رہی بات ضعیف اور بیمار خواتین کی، اول تو ایسی خواتین کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ گھروں میں نماز ادا کریں۔ جو مسجد میں وزٹ کے لیے آتی ہیں اور مجبوری میں نماز ادا کرنی پڑ رہی ہے تو ان کے لیے با پردہ الگ جگہ ہال میں دینی چاہیے۔ خواتین با جماعت نماز بھی بالکل ادا کرسکتی ہیں، لیکن ہوں پردے میں اور تمام لوازمات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس میں سب سے اہم صفوں کا اہتمام ہے۔ جیسا کہ حکم ہے کہ پہلے مردوں کی صف ہو، پھر بچوں کی، پھر مخنث اور اس کے بعد چوتھی صف میں خواتین ہوں۔ یہ ترتیب فقہی اعتبار سے نماز کی صفوں کی ہے۔ یہاں دو باتیں اہم ہیں ایک بات تو یہ کہ عورتیں اگر مردوں سے آگے یا برابر آجاتی ہیں تو احناف کے ہاں تو مرد کی نماز نہیں ہوگی، اگرچہ وہ نا محرم یا مرد کی بیوی ہی کیوں نہ ہو، اس کے لیے بھی احناف کے ہاں یہی حکم ہے۔ تو میرے نزدیک صدر مملکت کا اس حوالے سے نوٹس لینا اچھی بات ہے۔ لیکن ان تمام لوازمات کے ساتھ ہی خواتین کی نماز ادا ہوسکتی ہے جو کہ بیان کیے گئے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیف ریسرچ آفیسر مفتی غلام ماجد نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’اس حوالے سے مختلف روایات اور احادیث میں تفصیلات موجودہیں۔ ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے معنون ہے کہ ’اب فتنہ بڑھ گیا ہے اگر نبی کریم ﷺ یہ حالت دیکھتے جو عورتوں نے پیدا کردی ہے تو عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دیتے‘۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے، بلکہ فقہا یہ کہتے ہیں کہ جو عام مساجد ہیں محلے کی، وہاں عورتیں نہ جائیں کیوں کہ محلے کی عورتوں نے تو باہر نکلنا ہی نہیںہوتا۔ وہ گھروں ہی میں نماز ادا کریں۔ لیکن پبلک مقامات کی پر جہاں عورتوں کا آنا جانا ہوتا ہے جیسے، سیر وسیاحت اور ریلوے اسٹیشن یا پھر بس اسٹینڈ یا کسی مسافر خانے اور موٹر وے پر مساجدبنائی گئی ہیں، وہاں ان کے لیے الگ جگہ مختص کرنا ضروری ہے اور یہ احسن ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی پچھلے دنوں ایسی ہی ایک سفارش پیش کی ہے کہ ایسے پبلک مقامات جہاں عورتوں کا آنا جانا ہوتا ہے، وہاں خواتین کی نماز کے لیے مستقل جگہ رکھی جانی چاہیے۔ با جماعت نماز کے لیے بھی احناف کا یہی حکم ہے کہ اختلاط کی کوئی صورت بالکل نہ ہو۔ ہر مسجد کی اپنی ترتیب ہوتی ہے، ہر مسجد پر ایک ہی ترتیب لاگو نہیں کرسکتے۔ بس نا محرم سے آمنا سامنا یامیل جول نہ ہوسکے۔ صدر مملکت کو اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے نہ صرف مشاورت کرسکتے ہیں، بلکہ آئین کے تحت وہ کونسل کو اس حوالے سے ریفرنس بھی بھیج سکتے ہیں، جس پر کونسل غور و خوض کرکے اس پر اپنا فیصلہ دے سکتی ہے۔ کونسل ایسے معاملات کے لیے ہی ہے، اگر ہمارے پاس ریفرنس آیا یا صدر نے مشاورت کی تو ضرور اس پر کونسل عمل درآمد کرے گی‘‘۔
سی ڈی اے نے صدر مملکت کے اس حکم پر ایوان صدر کو رپورٹ ارسال کی ہے، جس میں کہا ہے کہ صورتحال کی بہتری کیلیے اقدامات شروع کیے ہیں۔ چونکہ دعوۃ اکیڈمی کی پالیسی کے تحت صرف ایک گیلری خواتین کیلیے مختص ہے، اس لیے مرکزی ہال میں خواتین کو داخلے کی اجازت نہیں۔
ذرائع سی ڈی اے کہتے ہیں کہ ’’اس حوالے سے دعوۃ اکیڈیمی سے رابطہ کیا گیا ہے اور فیصل مسجد کے ہال میں عورتوں کے لیے جگہ مختص کرنے پر غور شروع ہوچکا ہے۔ امید ہے کہ بہت جلد ضعیف اور بیمارعورتوں کے لیے ہال میں الگ جگہ مختص کردی جائے گی تاکہ جوعورتیں گیلری تک نہیں جاسکتیں، انہیں ہال میں شرعی طریقے سے نماز ادا کرنے کی اجازت دی جاسکے، امید ہے اس پر جلد از جلد کارروائی عمل میں لائی جائے گی‘‘۔