بلوچ سرداروں کی شمولیت
 سردار یار محمد رند بھی جمعیت علمائے اسلام سے رابطے میں تھے- تاہم نواب رئیسانی کو فوقیت دی گئی- ذرائع۔فائل فوٹو

مولویوں کی پارٹی میں بلوچ سرداروں کی شمولیت

امت رپورٹ:
بلوچستان میں ایک نیا سیاسی منظرنامہ بن رہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ڈویلپمنٹ بلوچ سرداروں کی مذہبی جماعت جے یو آئی میں شمولیت ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ بلوچ سردار مولویوں کی پارٹی کا حصہ بنے ہیں۔ جس پر سیاسی پنڈت حیران ہیں۔ اس کے نتیجے میں جمعیت علمائے اسلام کی صوبے کی انتخابی سیاست پر گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ کیونکہ جے یو آئی کی بلوچستان کے پشتون علاقوں میں گہری جڑیں ہیں اور انہی علاقوں سے پارٹی کے نمائندے منتخب ہوتے چلے آئے ہیں۔
واضح رہے کہ پچھلے چند روز کے دوران کئی بلوچ سرداروں اور وزرا نے اپنے سیکڑوں ساتھیوں سمیت جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان میں اہم نام سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا ہے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر نواب رئیسانی کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ بلوچستان اسمبلی کے امیر ترین رکن نواب اسلم رئیسانی، سراوان علاقے کے رئیسانی قبیلے کے سربراہ ہیں۔ بلوچستان میں ان کا بے انتہا سیاسی اثر و رسوخ ہے۔ اسی طرح سابق صوبائی وزیر داخلہ میر ظفراللہ زہری اور دیگر صوبائء وزرا امان اللہ نوتزئی اور حاجی غلام دستگیر بادینی نے بھی اپنے سیکڑوں ساتھیوں سمیت جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی ہے۔
جے یو آئی کے ذرائع نے بتایا کہ بلوچ سرداروں کو پارٹی میں لانے کی کوششوں کا سلسلہ پچھلے کافی عرصے سے چل رہا تھا۔ خاص طور پر نواب اسلم رئیسانی کو جے یو آئی کا حصہ بنانے پر بہت کام کیا گیا۔ جب یہ معاملات حتمی شکل اختیار کر گئے تو مولانا فضل الرحمن نے کوئٹہ کے دورے کا فیصلہ کیا۔ ان کا حالیہ دورہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ ذرائع کے بقول اگرچہ پی ٹی آئی کے رہنما سردار یار محمد رند بھی جے یو آئی سے رابطے میں تھے۔ تاہم نواب اسلم رئیسانی کے آجانے کے بعد اب یار محمد رند کی جے یو آئی میں جگہ نہیں بن سکتی کہ دونوں ایک دوسرے کے کٹر سیاسی حریف ہیں۔
اس وقت بلوچستان اسمبلی میں موجود جے یو آئی کے ارکان کی زیادہ تعداد پشتون علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ صوبے کی بلوچ بیلٹ میں جے یو آئی کی خاص نمائندگی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں صوبے کی کئی حکومتوں میں اتحادی ہونے کے باوجود جے یو آئی کا نمائندہ وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل نہیں ہو پاتا تھا۔ کیونکہ روایتی طور پر صوبے کا وزیر اعلیٰ بلوچ ہوتا ہے۔ جے یو آئی نے ماضی میں نواب اکبر بگٹی، میر جان محمد جمالی، جام محمد یوسف، اختر مینگل اور نواب اسلم رئیسانی سمیت ہمیشہ بلوچ وزرائے اعلیٰ کی حمایت کی۔ لیکن وزارت اعلیٰ کا قلمدان اس کے حصے میں نہیں آ سکا۔ کیونکہ اس کے ارکان کا تعلق پشتون علاقوں سے رہا۔
اس تناظر میں جے یو آئی میں بلوچ الیکٹ ایبلز سرداروں کی شمولیت کو پارٹی اپنی بڑی کامیابی تصور کرتی ہے۔ اس ڈویلپمنٹ پر ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے قریب تصور کیے جانے والے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا۔ ’’ہم نے بلوچستان فتح کر لیا ہے۔ صوبے میں اگلی حکومت جے یوآئی کی ہو گی‘‘۔ اس رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ جے یو آئی کا حصہ بننے والے الیکٹ ایبلز بلوچ سردار ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں الیکشن میں جے یو آئی ہمیشہ ہارتی چلی آرہی ہے۔ یوں بلوچ سرداروں کی شمولیت سے جے یو آئی کی انتخابی سیاست بلوچ علاقوں میں مضبوط ہوگی۔
واضح رہے کہ پینسٹھ ارکان پر مشتمل بلوچستان اسمبلی میں اس وقت جے یو آئی ارکان کی تعداد گیارہ سے بارہ ہے۔ جبکہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جے یو آئی کا ہے۔ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) چوبیس ارکان کے ساتھ اکثریت میں ہے اور اس نے مخلوط حکومت بنا رکھی ہے۔ اسی طرح جے یو آئی کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) دس ارکان کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ صوبائی ایوان میں اگرچہ تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد سات ہے۔ لیکن تحریک انصاف بلوچستان میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ اور ان سات ارکان کو لیڈ کرنے والے سردار یار محمد رند کی بغاوت کے سبب آئندہ الیکشن میں صوبے سے تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ غالب امکان ہے کہ وہ موجودہ سات سیٹوں میں سے بیشتر کھو دے گی۔ بلوچستان اسمبلی میں نون لیگ کی صرف ایک سیٹ ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی کوئی نمائندگی نہیں۔ اس منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو الیکٹ ایبلز بلوچ سرداروں کی شمولیت کے سبب آئندہ الیکشن میں جے یو آئی سادہ اکثریت حاصل نہیں بھی کر سکی تو اٹھارہ سے بیس سیٹیں لے کر صوبے میں مخلوط حکومت بنا سکتی ہے۔ جے یو آئی کو اس سلسلے میں بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت چند دیگر چھوٹی پارٹیوں کو اپنا اتحادی بنانے میں بظاہر مشکل دکھائی نہیں دیتی۔ واضح رہے کہ پینسٹھ ارکان پر مشتمل بلوچستان اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے پینتیس ارکان درکار ہوتے ہیں۔ ایک جے یو آئی رہنما کے بقول جے یو آئی کے علاوہ بلوچستان میں پی ڈی ایم کا وجود دیگر دو پارٹیوں کے سبب ہے۔ ان میں ایک محمود خان اچکزئی کی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی ہے۔ ایک پارٹی کی سیاسی جڑیں پشتون بیلٹ اور دوسرے کی بلوچ علاقوں میں ہیں۔ جبکہ تازہ ڈویلپمنٹ کے بعد جے یو آئی نے پشتون اور بلوچ، دونوں علاقوں میں اپنی سیاسی جڑیں بنا لی ہیں۔