احمد خلیل جازم:
وفاقی کابینہ نے منگل کے روز ریکوڈک منصوبے کے حتمی معاہدوں پر دستخط کی منظوری دے دی ہے۔ جبکہ حکومت میں شامل دو اتحادی جماعتوں نے کابینہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، جس کی بظاہر وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ یہ منصوبہ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف ہے۔ جس کے ذریعے آرٹیکل 38 کے تحت صوبائی اکائیوں کے درمیان موجود وسائل اور دیگر خدمات کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ ٹیتھیان کاپر کمپنی نے اگست 2010ء میں اپنی رپورٹ میں حکومت پاکستا ن کو اور حکومت بلوچستان کوبتایا تھا کہ اس مقام پر اتنا تانبہ اور سونا موجود ہے جسے 56 سال تک متواتر نکالا جاسکتا ہے۔ کمپنی کے مطابق ریکوڈک سے 2 لاکھ ٹن خالص تانبا اور 180 من خالص سونا سالانہ نکالا جاسکتا ہے۔ ریکوڈک منصوبے کی کہانی طویل اور پرانی ہے جب بلوچستان کی حکومت نے پہلے اس علاقے میں بین الاقوامی مائننگ کمپنی بی ایچ پی بلیٹن کے ساتھ 1993ء میں دستخط کیے تھے۔ اس میں یہ طے پایا تھا کہ ایک مشترکہ پروجیکٹ شروع کیا جائے گا، جس میں بلوچستان کا حصہ 25 فی صد اور بی ایچ پی کا حصہ 75 فیصد ہوگا۔ بعد ازاں اس معاہدے میں کافی اتارچڑھائو آئے اور سات جنوری 2013ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے اور دیگر معدنیات کی تلاش کے لیے غیر ملکی کمپنی کے ساتھ 1993ء کے ’ریکوڈک‘ معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اس بنیاد پر 2008ء سے 2013ء میں مائننگ کا لائسنس نہ ملنے پر کینیڈا اور چِلی کی مشترکہ کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی سمیت بیرک گولڈ کمپنی نے ثالثی کے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا تھا، جن میں سے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انسویٹمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ) نے کمپنی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان پر مجموعی طور گیارہ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔
دس برس سے زائد بین رہنے والے اس منصوبے پر رواں برس مارچ میں حکومت پاکستان نے بیرک گولڈ کمپنی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کا اعلان کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے پاکستان عالمی بینک کی ثالثی کی جانب سے ہونے والے جرمانے سے بچ گیا۔ واضح رہے کہ تین کمپنیوں میں سے ایک کمپنی عدالت سے باہر تصفیہ پر راضی ہوئی تھی۔ چنانچہ بیرک گولڈ اب اپنے دیگر دو شراکت کاروں کے ساتھ مل کر دوبارہ کام شروع کرے گی۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ، اس برس جولائی میں کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن نے اس شرط پر عدالت سے باہر تصفیہ کے لیے ہامی بھری کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ بھی اس کی تصفیہ کی حمایت کرے۔ چنانچہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اس حوالے سے ریفرنس صدر مملکت کو بھجوایا۔ اس کا مقصد سپریم کورٹ کے پرانے فیصلے سے سے بچنا اور اربوں ڈالر کا جرمانہ ختم کرانا تھا۔ چنانچہ بیرک گولڈ کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کیا گیا، جس میں پچاس فیصد کمپنی، پچیس فیصد حکومت پاکستان اور پچیس فیصد بلوچستان کو ملے گا۔ اسی تناظر میں ریکوڈک منصوبے پر رائے کے لیے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوایا گیا اور چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے 13 صفحات پر مشتمل بینچ کی اکثریتی رائے سناتے ہوئے کہا کہ نیا ریکوڈک معاہدہ قانونی ہے، اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں اور ان کی یہ رائے سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کے خلاف نہیں ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت کو اس حوالے سے تحفظات ہیں، جس کا اظہار بلوچستان کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ کے سامنے کیا۔ بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے اس پر فیصلہ دے چکی ہے۔ چنانچہ اب اس پر نظر ثانی نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ بلوچستان حکومت کو نئے معاہدے کے تحت 33 فیصد زائد حصہ مل رہا ہے۔ جب کہ حالیہ فیصلے کے تحت بلوچستان کے عوام کو اس کے فوائد بھی حاصل ہوں گے، جس میں کارپوریشن بلوچستان کے عوام کو ملازمتوں میں حصہ ، تنخواہوں کے قوانین کی مکمل پاسداری سمیت زیادہ تر لیبر پاکستانی ہونے کا تحفظ بھی دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بی این پی مینگل کو اس منصوبے پر اس لیے اعتراضات ہیں کہ وہ سمجھتی ہے کہ یہ کمپنی فراڈ ہے اور بلوچستان کے وسائل پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ بی این پی مینگل کے مطابق پاکستان کے پاس سونے اور تانبے کے ذخائر خود نکالنے کے لیے وسائل موجودہیں اور اس کا اعتراف ایک سابق جوہری سائینس دان بھی کرچکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق دراصل بلوچستان، وفاق کو پچیس فیصد منافع ملنے کے حق میں نہیںہے۔ بلوچستان کے سیاست دانوں کا موقف ہے کہ سوئی گیس، کوئلہ اور دیگر معدنیات سے بھی بلوچستان کو باقاعدہ حصہ نہیں مل رہا اور تمام وسائل سے وفاق فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ جب کہ بلوچستان میں غربت کا عالم وہی ہے جو ستر برس قبل تھا۔ اس منصوبے میں بھی بعد ازاں یہی ہوگا۔ بلوچستان اپنے وسائل سے محروم رہ جائے گا اور وفاق کو تمام فائدہ پہنچے گا۔ دوسری جانب جے یو آئی کااٹھارویں ترمیم کا حوالے سے کہنا ہے کہ جب اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو اختیارات دئیے گئے تھے، تو وہ اختیارات صوبوں کے وسائل کے حوالے سے بھی تھے۔ اٹھارویں ترمیم میں قومی فنائنس کمیشن، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دینے کی باتیں شامل ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ریکوڈک منصوبہ پر دستخط کے لیے بلائے گئے کابینہ کے اجلاس کا ان دونوں جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔