امت رپورٹ:
آخرکار عمران خان نے سترہ دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختون اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ دینے کا اعلان کر دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی اپنے اس اعلان پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔ تاہم وفاقی حکومت نے ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ جس میں عمران خان کی گرفتاری سرفہرست ہے۔
اہم نون لیگی ذرائع کے بقول اگرچہ نون لیگی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ صوبائی اسمبلیاں توڑنے سے متعلق عمران خان کی دھمکی محض ہوائی فائر ہے۔ اور یہ کہ ہارا ہوا کپتان ایک بار پھر اپنے ووٹرز، سپورٹرز کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رہا ہے۔ جیسا کہ لانگ مارچ میں کیا تھا۔ تاہم وفاقی حکومت نے حفظ ما تقدم کے طور پر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت سے حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ جس کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے پر تین آپشنز کو پلان اے، بی اور سی کے طور پر رکھا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کا زیادہ فوکس پنجاب پر ہے۔
پلان اے کے مطابق گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جا سکتا ہے۔ اگر گورنر صوبے کے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دے تو پھر وہ اسمبلی نہیں توڑ سکتا۔ قبل ازیں اسمبلیوں کی تحلیل روکنے کے لیے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا سوچا جا رہا تھا۔ تاہم قانونی ماہرین کی مشاورت کے بعد اب اس پر زیادہ فوکس نہیں کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اس آپشن کو اختیار کرنے میں آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر التوا پٹیشنز سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جس میں یہ فیصلہ ہونا ہے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان کی صرف رکنیت ختم ہوگی یا ان کا کاسٹ کیا گیا ووٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ کہ کیا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان کے خلاف کارروئی کا اختیار پارلیمانی لیڈر کو ہے یا پارٹی سربراہ کے پاس ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے یہ کہہ کر پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الٰہی کو ملنے والے قاف لیگی ارکان کے دس ووٹ شمار نہیں کیے تھے کہ انہوں نے پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت کی ہدایت کے بر خلاف ووٹ کاسٹ کیے۔ تاہم بعد ازاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط قرار دیدی تھی۔ اس کے نتیجے میں چوہدری پرویز الہی وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے اور حمزہ شہباز کو گھر جانا پڑا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف حمزہ شہباز اور دیگر نے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔ تاہم یہ درخواستیں تاحال التوا کا شکار ہیں۔ نون لیگی ذرائع کے مطابق اگر چہ پی ٹی آئی کے پندرہ سے بیس ارکان صوبائی اسمبلی، ان سے رابطے میں ہیں۔ لیکن جب تک زیر التوا نظر ثانی کی درخواستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آجاتا۔ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد بے کار کی مشق ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ منحرف ارکان کے ووٹ ایک بار پھر شمار نہیں کئے جائیں گے، اور وہ نااہل الگ ہو جائیں گے۔ اس کے بجائے گورنر کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہلانا زیادہ کارگر ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ووٹنگ والے روز بیماری یا کسی اور وجہ سے بعض ارکان غیر حاضر بھی ہو سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پلان بی یہ ہے کہ عمران خان کی ہدایت پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے پر نوّے روز میں الیکشن کرانے کے بجائے آئین کی شق دو سو بتیس کا سہارا لیا جائے۔ جس کے تحت معاشی ایمر جنسی لگا کر الیکشن کو مزید نوّے روز آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس شق کو استعمال کرنے کے لیے صدر مملکت کی رضامندی آئینی ضرورت ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پلان اے اور بی پر عملدرآمد ممکن نہ ہو سکا تو پھر پلان سی کو استعمال کیا جائے گا۔ پلان سی یہ ہے کہ عمران خان صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی انہونی کر دیتے ہیں تو پھر متعلقہ صوبوں میں الیکشن کرادیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق خاص طور پر پنجاب میں الیکشن کو لے کر نون لیگ اب پر اعتماد ہے کہ وہ تحریک انصاف کو شکست دے سکتی ہے۔ نون لیگی قیادت کے خیال میں دو ماہ قبل تک عمران خان کی مقبولیت کا جو گراف تھا، وہ بتدریج نیچے جا رہا ہے۔ اس کے بنیادی اسباب میں ناکام ترین لانگ مارچ، امریکی سازش کے بیانیہ سے چیئرمین عمران خان کا یوٹرن لینا اور توشہ خانہ کیس میں سامنے آنے والے حقائق شامل ہیں۔ نون لیگی ذرائع کے بقول ان اسباب کے اثرات آزاد کشمیر کے بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کی درگت سے واضح ہیں۔ ایک نون لیگی رکن پارلیمنٹ کے مطابق اگر پنجاب اسمبلی تحلیل کئے جانے کی صورت میں صوبے میں قبل از وقت الیکشن کرانے پڑتے ہیں تو انتخابی مہم چلانے کے لئے نواز شریف موجود ہوں گے۔ یہ طے کیا جا چکا ہے۔
نواز شریف اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ نون لیگی قیادت کا خیال ہے کہ ایسے میں جب عمران خان کی مقبولیت کا گراف دوبارہ گر رہا ہے۔ نواز شریف کی جانب سے انتخابی مہم کو لیڈ کرنا پانسہ پلٹ دے گا۔ اس سوچ کے تحت ہی پارٹی قیادت نے صوبے میں الیکشن کرانا بھی آخری آپشن کے طور پر رکھا ہے۔ بشرطیکہ عمران خان لانگ مارچ کی طرح اسمبلیاں توڑنے کے معاملے پر بھی یو ٹرن نہ لے لیں۔ کیونکہ نون لیگی رہنماؤں کی اکثریت کو یقین ہے کہ عمران خان کا اعلان محض گیدڑ بھبھکی ہے اور وہ کبھی بھی اسمبلیاں توڑنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ کیونکہ اس صورت میں الیکشن تو بعد میں ہوں گے۔ پہلے انہیں بطور اپوزیشن لیڈر پورے نوّے روز کے اس کڑے امتحان سے گزرنا پڑے گا، جس کا سامنا ان کے دور میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کرتی رہی ہیں۔ اس میں نئے مقدمات اور گرفتاریاں سرفہرست ہیں۔ اس کا عندیہ رانا ثناء اللہ دے چکے ہیں۔ پھر یہ کہ صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی صورت میں عمران خان کو وہ پناہ گاہیں میسر نہیں ہوں گی، جہاں گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ ڈیرے ڈالتے رہے ہیں۔
ایک سے زائد نون لیگی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اسمبلی توڑنے پر پہلی گرفتاری عمران خان کی متوقع ہے۔ اس کے لیے پہلے سے موجود مقدمات کے علاوہ نئے مقدمات بھی درج کیے جا سکتے ہیں۔ نگراں دور حکومت میں وزارت داخلہ اس ٹاسک کو صوبے میں وفاق کے نمائندے آئی جی کے ذریعے پورا کرنے کا پلان بنائے بیٹھی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کی دیگر قیادت کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق نون لیگی حکومت اپنے اتحادیوں سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے پر بھی ملک بھر میں عام انتخابات مقررہ وقت پر کرائے جائیں گے۔ تاہم جس صوبے میں اسمبلیاں توڑنے کا ارادہ کیا جائے گا۔ پہلے اسے روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ بصورت دیگر وہاں الیکشن کرا دیئے جائیں گے۔ جس کا اظہار وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کر چکے ہیں۔