محمد علی:
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت آج 16 دسمبر کو ’’آزادی‘‘ کی 52 ویں سالگرہ منا رہی ہے۔ بھارت کی آشیر باد سے بننے والی یہ ریاست اپنے قیام کے نصف صدی کے بعد ہی سنگین بحرانوں میں گھر گئی ہے۔ جہاں سیاسی بحران کے علاوہ معاشی بحران بھی تشویش ناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ معاشی ابتری پر حسینہ حکومت آئی ایم ایف کا در کھٹکھٹانے پر مجبور ہوگئی ہے۔ جبکہ ملک میں اپوزیشن اور اسلام پسند روح فرسا مظالم جھیل رہے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل سمیت مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے جیسے معاملات پر میڈیا خاموش ہے۔ جہاں سنسر شپ کا راج ہے۔ ادھر قبل از انتخابات کا مطالبہ کرنے کے جرم میں جماعت اسلامی کے امیر شفیق الرحمان کو دہشت گردی کے ایک مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ترجمان مطیع الرحمان نے حسینہ واجد کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکومت چاہتی ہے ہم الیکشن کے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ ہم 15 برس سے ظلم و جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ شفیق الرحمان کو دہشت گردی کے جعلی مقدمہ میں پھنسانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ تاکہ ہم الیکشن کرانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ جائیں۔ شفیق الرحمان کو آدھی رات کو انسداد دہشت گردی کے نام نہاد یونٹ کے ذریعے گھر سے چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا، جو سراسر ناانصافی ہے‘‘۔
واضح رہے کہ خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے دو سینئر رہنماؤں کو بھی حکومت مخالف احتجاج پر گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بی این پی اور جماعت اسلامی نے حسینہ حکومت کیخلاف اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے قبل از وقت الیکشن اور حسینہ حکومت کی فوری برطرفی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حسینہ واجد حکومت کی مہربانی سے چند برسوں کے دوران بنگلہ دیش میں معاشی حالت بد سے بتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک کے حالات بہتر کرنے کے بجائے حسینہ واجد اپنا اقتدار بچانے میں سرگرم عمل ہے۔ آج 16 دسمبر کی ’’فتح‘‘ کے موقع پر جاری ایک بیان میں حسینہ واجد نے بی این پی پر سیاسی حملے کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ جب بھی حکومت میں آتے ہیں ملک کو بہت پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ ان کے دور میں کبھی ترقی نہیں ہوئی۔ بنگلہ دیش نے ہمارے دور میں سب سے زیادہ ترقی کی‘‘۔ تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔
عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں مہنگائی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حسینہ حکومت نے گیس اور تیل کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ رواں برس پٹرولیم مصنوعات میں باون فیصد اضافہ کیا گیا۔ جبکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور قیمتیوں میں بھی گزشتہ چند میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ جس سے غریب طبقہ اور لوئر مڈل کلاس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیشی کرنسی یعنی ٹکا، ڈالر کے مقابلے میں 25 فیصد تک گر چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ گراوٹ گزشتہ 8 ماہ کے دوران دیکھی گئی۔ مارچ 2022ء میں بنگلہ دیشی ٹکا ڈالر کے مقابلے میں 85 ٹکے کا تھا۔ جو اب 104 اعشاریہ 44 ٹکے پر آچکا ہے۔ ٹکا کی بے قدری سے جہاں اشیائے خور و نوش کی درآمد میں دشواری پیدا ہو رہی ہے۔ وہیں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے بی این پی کے احتجاج میں شریک رسول میاں نامی رکشا ڈرائیور نے کہا تھا کہ وہ اس مظاہرے میں اشیائے خور و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کیخلاف اپنے غم و غصے کے اظہار کیلئے شریک ہوا ہے۔ مذکورہ شہری نے کہا ’’کنبے کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔ میں یہاں ان لوگوں کے خلاف احتجاج کیلئے آیا ہوں جو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں‘‘۔ رپورٹ کے مطابق 2022ء میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی شرح نمو 7 فیصد اضافے کے ساتھ 443 اعشاریہ 32 ملین ڈالر کی سطح تک جانے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ جبکہ 2021ء میں یہ 416 اعشاریہ 26 بلین ڈالر تھی۔ تاہم رواں برس جی ڈی پی 8 ارب ڈالر سے زائد کمی کے بعد 407 بلین ڈالر کے آس پاس دیکھی جا رہی ہے۔
اسی طرح بنگلہ دیش کے دیگر معاشی انڈیکیٹرز بھی نیچے جا رہے ہیں، جس سے حسینہ حکومت کی کارکردگی کی قلعی کھل گئی ہے۔ بنگلہ دیش کی حسینہ حکومت نے معاشی بحران کے پیش نظر رواں برس جولائی سے ہی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ گزشتہ ماہ نومبر میں آئی ایم ایف اور بنگلہ دیش کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ طے پایا، جس میں آئی ایم ایف نے بنگلہ دیش کو سپورٹ پروگرام کی مد میں 4.5 ارب ڈالر قرض دینے کی منظوری دے دی ہے۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش اپنے قیام سے اب تک آئی ایم ایف سے ایک درجن سے زائد معاہدے کر چکا ہے۔ 2012ء میں بھی حسینہ حکومت نے مالی امداد کیلئے آئی ایم ایف کا در کھٹکھٹایا تھا۔