نواز طاہر:
پاکستان ریلوے کی پٹڑی پر نئے سال کے آغاز پر سبز رنگ کی جدید ترین بوگیوں کی ٹرین دوڑتی ہوئی نظر آئے گی۔ اس میں چین سے درآمد کی جانے والی پُر سہولت بوگیاں لگائی جا رہی ہیں۔ سبز رنگ کی بوگیاں سب سے پہلے گرین لائن ایکسپریس میں لگائی جارہی ہیں جو سیلاب کے دوران معطل ہوگئی تھی اور جنوری میں بحال کی جارہی ہے۔ اب اس میں پُر آسائش سفری سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ یہ وی آئی پی کوچیں، پانچ سال کی تاخیر سے پچھلے مہینے پاکستان پہنچی تھیں۔
واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق دورِ حکومت میں ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق کے دور میں، چین پاکستان ریلویز نے ٹرینوں کے حصول کے لیے چائنا ریلوے کنسٹرکشن کارپوریشن تانگشن لوکوموٹیو اینڈ رولنگ اسٹاک کمپنی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ لیکن یہ کوچیں پاکستان کو نہیں ملی تھیں۔ تاہم نومبر کے وسط میں ان میں سے چھیالیس کوچیں پاکستان پہنچی تھیں جو لاہور اور اسلام آباد منتقل ہوچکی ہیں اور ان کا ٹرائل بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔ چین سے ملنے والی 46 کوچوں میں اکانومی کلاس ایئر کنڈیشنر اسٹینڈرڈ، بزنس اور پالر کارز شامل ہیں۔ ان کوچوں میں مقامی طور پر مسافروں کی سہولت اور آسائش و آرام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کچھ آلٹریشن کی گئی ہے۔
ابتدائی طور پر خیال کیا جارہا تھا کہ یہ کوچیں سیالکوٹ سے کراچی کے درمیان چلنے والی علامہ اقبال جیسی خستہ حالت بوگیوں والی ٹرین میں لگائی جائیں۔ بعد میں پتا چلا کہ لاہور اور کراچی کے درمیان چلنے والی کراچی ایکسپریس میں لگائی جائیں گی یا پھر نجی شعبے کی ٹرینوں میں شامل کی جائیں گی، جن کے ٹھیکیداروں میں با اثر شخصیات بھی پشت پر ہیں۔ لیکن اب ریلویز کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ جس وقت یہ بوگیاں آئی تھیں، تب ریلوے نے ان کے استعمال کا حتمی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اور اس لئے قیاس یہ آرائی کی جارہی تھی۔ لیکن اب یہ کوچیں اسلام آباد سے کراچی تک چلنے والی گرین لائن ایکسپریس میں لگائی جائیں گی۔ اس ٹرین میں ایئر کنڈیشنڈ پارلز کار کی دو، اے سی بزنس کی پانچ، اے سی اسٹینڈرڈ کی چھ اور اکانومی کلاس کی پانچ کوچیں استعمال ہوںگی اور مجموعی طور پر بیس کوچوں پر مشمل یہ ٹرین چلائی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق ابھی چونکہ 46کوچیں دستیاب ہیں، اس لیے ممکنہ طور پر تین ریک ( تین گاڑیاں ) بنانے کیلیے کچھ دوسری بوگیاں بھی ایسی معیار کی تیار کرکے شامل کی جائیں گے۔ ہفتے کو ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق نے بتایا ہے کہ اس ٹرین میں کھانے سمیت دیگر سہولیات ٹکٹ ساتھ ہی فراہم کی جائیں گی۔ تاہم ابھی کنٹریکٹر سمیت کچھ چیزیں فائنل کرنا باقی ہیں۔ ذرائع کے مطابق گرین لائن کے کرائے کا تعین بھی باقی ہے۔ اس سے پہلے وزیر ریلوے نے ان کوچوں کا ٹرائل بھی چیک کیا اور پاکستان مسافروں کی سہولت کے پیشِ نظر سیٹوں اور برتھوں کے حوالے سے کچھ آلٹریشن بھی کروائی اور الیکٹرانک سہولیات بشمول نرم سیٹس، ٹچ ا سکرینز، اے سی، ہیٹر، چارجنگ پورٹس وغیرہ تجویز کیں، جن پر کام تقریباً مکمل کرلیا گیا ہے۔ اس کیلئے مقامی انجینئرز اور عملے نے چین سے تربیت لینے والے افسروں اور کارکنوں کی معاونت حاصل کی ہے۔ ان جیسی مزید 80 کوچوں کی تیاری کیریج فیکٹری اسلام آباد میں جاری ہے، جبکہ مجموعی طور پر ایک سو چوراسی کوچیں تیار کی جانا ہیں۔
چین سے تربیت حاصل کرنے والے پاکستان ریلوے کے ایک افسر نے بتایا کہ، پاکستان کی اہم کامیابی اور چین کی دوستی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ چین نے بوگیاں تیار کرنے والے ٹیکنالوجی بھی منتقل کردی ہے اور ساتھ ہی مشینری بھی فراہم کی ہے۔ موجودہ معاہدے کے تحت ملنے والے کوچیں چین سے ہی آئیں گی اور ان کا کچھ کام پاکستان میں ہوگا۔ اور اس کے بعد ایسی بوگیاں چین کی ٹیکنالوجی اور تعاون سے ہمارے اپنے انجینئرز اور ہنر مند کارکن تیاری شروع کردیں گے، جن کے لئے تمام آلات و پرزہ جات سبھی کچھ مقامی سطح پر تیار کیا جائے گا۔ یوں دو، تین سال میں بوگیوں کی قلت دور ہوجائے گی۔ اس سے نہ صرف ہماری درآمدی قیمت پر فرق پڑے گا اور بھاری زرِ مبادلہ بچے گا، بلکہ ضرورت کے مطابق کوچوں کی تیاری کا مسلسل عمل شروع ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ چین نے پاکستان کو ابھی مال بردار ویگیں بھی فراہم کرنی ہیں۔ جبکہ چھ سو بیس ویگیں مغل پورہ لاہور ورکشاپ میں تیار کی جائیں گی۔
نئی کوچوں کے بارے میں پاکستان ریلوے کے ٹیکنیکل اسٹاف نے بتایا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں چین سے درآمد ہونے والی بوگیوں سے بہتر ہیں اور ان کی نشستیں اور برتھ بھی بہتر ہیں۔ دوسری جانب ریلوے کے وزیر نے نجی شعبے کو زیادہ آمدنی والی مسافر گاڑیاں دینے اور نئے کوچوں کے حوالے سے سوال پر بتایا کہ نجی شعبے کو اس بنیاد پر کوئی ٹرین نہیں دی جاسکتی کہ اس سے ریلوے کو کچھ آمدنی نہ ہو اور وسائل بھی اسی کے استعمال ہوں۔ نجی شعبے کو اسی صورت میں گاڑیاں دیں گے جب وہ ریلوے کو بھی کما کردیں۔ ہم نے ماضی میں بھی کرائے کم کیے تھے اور اب بھی پیٹرولیم مصنوعات کی کمی کی صورت میں کرائے کم کردیے جائیں گے۔ جبکہ پسنجر آپریشن بھی قابلِ عمل ہونے کی بنیاد پر ہی جاری رکھا جائے گا۔ تاہم انہوں نے اے سی سلیپر کلاس کی بحالی کے بارے میں سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔ لیکن ریلوے ذرائع نے بتایا ہے کہ ممکنہ طور پر مستقبل میں مرکزی لائن پر کم از کم ایک اور گاڑی میں اے سی سلیپر کی بحالی پرغور کیا جارہا ہے۔ مگر ریلوے کے وزیر اور چیئرمین نے آمدنی کے ذرائع بڑھانے کیلئے ابھی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے۔