جنات جھوٹ بہت بولتے ہیں
 جعلی عامل انسان کو ہی تکالیف دے کر ادھ موا کر دیتا ہے- مسلمان اور کافر جنات کو بھگانے کے طریقے الگ ہیں۔فائل فوٹو

مزارات پر ڈھونگی بابائوں کے بھی ڈیرے ہوتے ہیں

میگزین رپورٹ:
مزارت خود اپنے اندر ایک پوری سائنس رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات مزارات پر موجود ملنگ اور دیگر مفاد پرست عناصر یہاں آنے والے لوگوں کو بے وقوف بناکر ان سے پیسے اینٹھتے رہتے ہیں۔ جبکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بابا ملنگ نے ان کا کام کرادیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس سے قبل کہ مزارات پر چلنے والے سائنس کے بارے میں بات کی جائے پہلے کوئی بھی کام ہونے کے حوالے سے اسلامی نکتہ نگاہ کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بات مکمل طور سے واضح ہوجائے گی۔ اللہ کے رسولﷺ کی جانب سے ملنے والی تعلیمات کی رو سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہے کہ انسان کا کوئی کام بغیر اللہ پاک کی مرضی نہیں ہوسکتا۔ اللہ پاک جسے چاہتا ہے نواز دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے۔ یہی خدا کی شان ہے۔ خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں لوگوں کواولاد سے نوازنے کے بارے میں قانون بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’وہ جسے چاہے لڑکی دے، جسے چاہے لڑکا دے اور جسے چاہے یا تو لڑکی اور لڑکے دونوں، یا بالکل ہی محروم کرنے کے لئے بانجھ کردے۔‘‘ بہرحال یہ بات تو بالکل واضح صاور صاف ہے کہ اللہ پاک ہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور انسان سمیت دنیا کی ہر شے اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جب یہ بات واضح ہوگئی تو اب آگے بڑھنا چاہئے۔
چونکہ اللہ رب العزت نے انسان کو دنیا میں امتحان کی غرض سے بھیجا ہے اس لئے اللہ رب العزت نے اس کے لئے جا بجا امتحان گاہیں قائم کی ہیں۔ ان امتحان گاہوں میں اس کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رب العزت اپنے ہر بندے کے ساتھ اس کے گمان ہی کے مطابق سلوک کرتا ہے۔ آپﷺ ہی کی تعلیمات سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ رب لعزت ہر شخص کو نوازتا ضرور ہے۔ اگر کوئی پتھر بھی اپنا داتا مان کر اس سے پورے یقین کے ساتھ مانگے تو اللہ رب العزت اسے بھی عطا کرے گا۔ لیکن اس کے بعد آخرت میں اس سے سوال ضرور ہوگا کہ اس نے اللہ کو چھوڑ کر پتھر سے کیوں مانگا؟

ماضی کے علاوہ یہ بات حال میں بھی روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ ہندو، عیسائی اور دیگر ادیان کے ماننے والے پتھر کی مورتیوں کو سامنے رکھ کر ان سے دعائیں مانگتے ہیں اور اللہ پاک ان کی بھی سنتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ اللہ رب العزت کے ہاں انسان کی دعائیں اس کے یقین کے درجات کو دیکھ کر قبول کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص بے یقینی کے ساتھ اللہ پاک سے بھی مانگے تو اللہ پاک اسے ہرگز عطا نہیں کرے گا۔ جبکہ دسرا شخص اگر پورے یقین کے ساتھ کسی پتھر یا جانور سے بھی مانگے گا تو اللہ رب العزت اسے دنیا میں اس کا صلہ ضرور عطا کرے گا۔ مانگی جانے والی دعائوں پر عطا کرنا ایک الگ چیز ہے اور مانگنے پر سزا و جزا کا مقرر ہونا ایک الگ چیز ہے۔ پورے یقین کے ساتھ اگر کسی بھی چیز سے مانگا جائے تو اللہ رب العزت اس کے یقین کے مطابق اسے عطا کردیتے ہیں، لیکن کس سے مانگا جارہا ہے اس پر اللہ کے ہاں جزا و سزا مقرر ہے۔ خود قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپﷺ کی بعثت سے قبل اور اس زمانے میں جب کفار، جنات سے مدد طلب کیا کرتے تھے تو اللہ رب العزت ان کے یقین کو دیکھتے ہوئے ان کی دعائیں تو پوری کرتا تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے انہیں دو نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان میں سے ایک تو دنیاوی ہوتا تھا اور دوسرا اخروی۔ دنیاوی نقصان یہ تھا کہ انسانوں پر جنات کی سرکشی حد سے زیادہ بڑھ جاتی تھی اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ انسانوں سے بھی اعلیٰ و اشرف ہیں۔ اس کی بنیاد پر وہ انسانوں پر اپنی من مانی چلاتے تھے اور انسان اس کی وجہ سے مشکلات میں گھر جاتے تھے۔ اخروی نقصان یہ تھا کہ اللہ کے ہاں وہ گناہ کے سزا وار ٹھہرائے جاتے تھے۔ بہرحال جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ پاک کی طرف سے انسان کو نوازے جانے کا معیار کیا ہے اور کس بنیاد پر انسان کو نوازا جاتا ہے؟ تو اب مزارات کی سائنس کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوگا۔
دنیا کے کسی بھی مسلک اور مذہب میں مزارات کو کبھی بری نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ حقیقت میں مزارات پر اللہ رب العزت کی خاص برکتوں کا نزول ہوتا ہے اور اللہ پاک اپنے مقرب بندوں کے یہاں موجود ہونے کی وجہ سے اس جگہ کو خاص مقام دیتے ہیں۔ ہاں یہ بات ضروری ہے کہ بعض مزارات پر ہونے والی مشرکات اور دیگر غلط کاموں کے باعث اللہ رب العزت یہاں سے صاحب مزار کو کہیں اور پہنچادیتے ہیں اور پھر اس مقام پر اللہ کی جانب سے غضب اور غصے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔