محمد نواز طاہر:
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے صوبہ خیبر پختون اور پنجاب کی اسمبلی کی جمعہ تیئس دسمبر کو تحلیل کرنے کے اعلان سے پی ڈی ایم جماعتیں میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ خاص طور پر پنجاب اسمبلی سبھی کیلئے چیلنج بن گئی ہے۔ تاہم پنجاب میں اپوزیشن اتحاد کے بعض رہنمائوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کی دھمکی دے کر سیاسی بلیک میلنگ کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ہفتے کی شب صوبہ خیبر پختون کے وزیر اعلیٰ محمود خان کو دائیں اور اور پنجاب میں اتحادی وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو بائیں جانب بٹھا کر اعلان کیا تھا کہ دونوں صوبوں کی اسمبلیاں جمعہ تئیس دسمبر کو تحلیل کردی جائیں گی۔ اور اس سے پہلے متعلقہ گورنروں کو وزرائے اعلیٰ کی جانب سے ایڈوائس بھجوادی جائے گی۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ق کے رہنما اور پنجاب کے وزیراعلیٰ مارچ تک اسمبلی برقرار رکھنے کا اعلان کرچکے تھے اور اسی بنا پر خیال کیا جارہا تھا کہ وہ اسمبلی اور اپنی وزارتِ اعلیٰ بچانے کیلئے کوئی دوسرا اسٹپ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر اعلان سننے اور بعد میں اس کی تائید کرنے سے ان کے بارے میں پی ٹی آئی کے تحفظات وقتی طور پر ختم ہوگئے تھے۔ اور فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے کی تائید کرتے ہوئے عمران خان کے اتحادی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے تصدیق کی تھی کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کیلئے گورنر کو ارسال کرنے کیلئے تیار کیاجانے والی سمری پر وہ چودھری پرویز الٰہی کے دستخط دیکھ چکے ہیں۔
مملکت کے دستور کے تحت وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کی روشنی میں گورنر اسمبلی کی تحلیل کا پابند ہے اور اگر وہ اس پر عمل نہ کرے تو دو دن کے بعداسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔ تاہم اگر وزیر اعلیٰ کیخلاف عدمِ اعتماد کی تحریک زیر التوا ہوتو گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں اور نہ ہی وہ ایسی کسی ایڈوائس پر اسمبلی کی تحلیل کا حکم نامہ جا ری کرسکتے ہیں۔ اور اسمبلی کے جاری اجلاس کے دوران بھی اسمبلی تحلیل نہیں کی جاسکتی۔ جبکہ پنجاب اسمبلی کا طویل سیشن جاری ہے اور آج پیر کو بھی دوپہر دو بجے شیڈول ہے۔ اسمبلی کی تحلیل کے عمران پلان کے بارے میں مسلم لیگ ن کے اہم رکن پنجاب اسمبلی رانا مشہود احمد پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وزیراعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کیلئے ریکوزیشن پر اپوزیشن نے ایک سو آٹھ ارکان کے دستخط حاصل کرلئے ہیں اور ریکوزیشن جمع کرواکر اسمبلی کی تحلیل کا راستہ روکا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ نئی ریکوزیشن نہیں ہے، بلکہ سردار عثمان کیخلاف پہلی تحریک ِ عدم اعتماد وزیراعلیٰ کے نئے انتخاب کے باعث غیر موثر ہونے پر فوراً ہی دستخط کروالی گئی تھی۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن پی ٹی آئی کے حق میں ہے، جس کے اپنے ایک سو اسی اور اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے دس اراکین ملا کر تین سو اکہتر اراکین میں سے ایک نوے اراکین ہیں۔ جبکہ اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سو سرسٹھ ، پاکستان پیپلز پارٹی کے سات ، پاکستان راہِ حق پارٹی کے ایک اور آزاد اراکین پانچ اور ایک غیر اتحادی رکن کو ملا کر کل ایک سو اسی اراکین ہیں۔ اس ایوان میں ایک رکن چوہدری نثار علی خان خاموش، آزاد اور اب تک غیر فعال رکن ہیں۔
دونوں اتحادوں میں پی ٹی آئی کو دس اراکین کی برتری حاصل ہے۔ اس برتری کے دوران اپوزیشن اپوزیشن کیلئے وزیراعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروانا لگ بھگ نا ممکن ہے۔ تاہم وقتی طور پر قرارداد جمع کروانے سے اسمبلی کی تحلیل میں رکاوٹ کی کوشش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اسپیکر کی حیثیت سے چودھری پرویز الٰہی اسمبلی کے قواعد انضباطِ کار کے تحت اسمبلی کے اجلاس کا وقت اور تاریخ تبدیل کرنے کا جو طریقِ کار اختیار کرتے رہے ہیں، اس کی روشنی میں اپوزیشن کیلئے مزید مشکلات ہیں۔ اور خاص طور پر اس وقت جبکہ درجن سے زائد اراکین کی اجلاس میں شرکت پر بھی پابندی ہے۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘‘ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ سے رابطہ کیا تو انہوں نے واضح کیا کہ، اسمبلی کی تحلیل رکوانے کیلئے جب ضرورت محسوس کی جائے گی تو مناسب وقت پر اپوزیشن مناسب اقدام اٹھائے گی۔ لیکن فی الحال تو عمران خان نے اپنی کھال بچانے کیلئے اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ دی ہے۔ جس کا مقصد صرف بلیک میلنگ ہے۔ ہم جانتے ہیں عمران خان نے اسمبلی تحلیل نہیں کرنی ۔ کیونکہ خیبر پختون اور پنجاب کی اسمبلیاں ہی تو عمران خان کی پناہ گاہیں ہیں۔ وہ کبھی خیبر پختون چلے جاتے ہیں اور کبھی پنجاب میں پناہ لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ ملک و قوم کا اور خاص طور پر کشمیر کا سودا کرکے گئے اور اس کیخلاف قوم غداری کا مقدمہ دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ گھڑی اور توشہ خانہ تو معمولی باتیں ہیں۔ قوم یہ بھی صرف نظر کرسکتی ہے۔ لیکن کشمیر کا سودا کرنے والے کو یہ قوم برداشت نہیں کرسکتی نہ ہی کرنا چاہئے۔ ہم جمہوریت پسند اور قانون کے تابع لوگ ہیں۔ جمہوری انداز میں بھی مقابلہ کریں گے اور قانون تو اپنا راستہ لے گا ہی۔
اسی دوران جبکہ اسمبلی کی تحلیل کے اعلان کی تائید کو ابھی چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کے بنیادی بیانیے ( قمر جاوید باجوہ، سابق آرمی چیف کے بارے میں) کی نفی کردی ہے اور کہا ہے کہ وہ اور ان کی پارٹی قمر جاوید باجوہ کے معاملے پر قمر باجوہ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ چودھری پرویز الٰہی نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے عمران خان پر بہت احسانات ہیں۔ احسان فراموشی نہ کی جائے۔‘‘ پرویز الٰہی کا کہنا تھا ’’جب عمران خان جنرل باجوہ کے خلاف بات کر رہے تھے تو مجھے بہت برا لگا۔ جنرل باجوہ ہمارے محسن ہیں۔ محسنوں کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ جنرل باجوہ کے خلاف اب اگر بات کی گئی تو سب سے پہلیمیں بولوں گا، میری ساری پارٹی بولے گی۔ ہم عمران خان اور پی ٹی آئی کے مخالف نہیں ساتھی ہیں، لیکن اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔‘‘
اس بیان کے بعد ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے اعلان اور چودھری پرویز الٰہی کے اسٹینڈ نے صورتحال کو عمران خان کیلئے سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ انہی سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اگر پرویز الٰہی میں مزید فاصلہ بڑھتا ہے تو چودھری پرویز الٰہی عمران خان سے راستہ الگ بھی کرسکتے ہیں، جس سے اپوزیشن کی پوزیشن مستحکم اور عمران خان کی جماعت اقلیت میں آجائے گی۔