گزشتہ چند ہفتوں سے سیاسی افق پر اس تیزی سے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ کسی ایشو پر تبصرہ چند گھنٹے کے اندر غیر متعلق اور پرانا ہو جاتا ہے۔ ہر چند گھنٹے بعد نیا واقعہ پہلے والے کو کھا جاتا ہے یا پھر پرانے واقعے کے بطن سے کئی نئے واقعات جنم لے لیتے ہیں اور تجزیہ کار سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ
"کسے وکیل کریں ،کس سے منصفی چاہیں ”
مگر یہ کریڈٹ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو دیے بغیر چارہ نہیں کہ گذشتہ کئی ماہ سے وطن عزیز میں رونما ہونے والے تمام سیاسی واقعات کسی نہ کسی طرح انہی کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی طرف سے دو اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان نے سیاسی میدان میں اتھل پتھل مچا رکھی ہے۔۔ سیاسی عدم استحکام کسی طور معاشی استحکام کو راستہ نہیں دے دے رہا۔ ملک کے طول و عرض میں ایک بے یقینی اور بے چینی کی فضا ہے۔ بے یقینی کی اسی دھند میں لپٹے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے تخت کو گرانے اور بچانے کیلئے بھی جنگ جاری ہے۔
اسی جنگ کے ہنگام دو روز قبل عمران خان سے اخبارات کے مدیران کی تنظیم کی لاہور میں ملاقات ہوئی، جہاں اپنے آبائی گھر زمان پارک کو انہوں نے آج کل مسکن بنا رکھا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب لاہور ملک بھر کے صحافیوں کے لیے خبروں کا مرکزبنا ہوا ہے ،ہر اخبار نویس کی طرح ہمارے لیے یہ ملاقات بہت اہم تھی ۔ اس ملاقات کی اہمیت اس لئے اور بھی بڑھ گئی تھی کہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال کے پیش نظر اس سے دو گھنٹے پہلے وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی سے ہمارے وفد کی طےشدہ ملاقات اچانک منسوخ ہوچکی تھی ،جبکہ خود عمران خان سے طے شدہ ملاقات بھیایک گھنٹہ آگے بڑھا دی گئی، بتایا گیا کہ وہ بخار میں مبتلا ہونے کے باوجود ملاقات منسوخ نہیں کرنا چاہتے ۔ چوہدری پرویز الہی جیسے وضع دار سیاستدان کی جانب سے منسوخی کا یہ فیصلہ اچانک کیوں کیا گیا اس کی سمجھ ہمیں اگلے چند گھنٹوں میں آگئی کہ عین اس وقت جب عمران خان ایڈیٹرز کے ساتھ گفتگو میں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو تختہ مشق بنارہے تھے تو دوسری جانب چوہدری صاحب زیادہ بلند آہنگ اور گرجدار آواز میں سابق سپہ سالار کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے انہیں خبردار کر رہے تھے کہ خان صاحب "محسن کشی” سے باز رہیں۔ وزیر اعلٰی کے اس بیان سے میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہو گیا اور اس طرح چودھری صاحب کی خبر خان صاحب کی خبر کو کھا گئی۔
خیر جب ہم زمان پارک پہنچے تو ٹی وی چینلز کے ڈی ایس این جیز کی طویل قطار اور کیمروں کی بہار اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ لاہور کے پوش علاقے کا یہ گھر اس وقت سب کی توجہ کا مرکز ہے۔فواد چوہدری اسمبلیوں کی تحلیل کے متعلق عمران خان کے ایک دن پہلے کے بیان کی تشریح کر رہے تھے۔سکیورٹی کے مراحل سے گزرنے کے بعد ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا جہاں عمران خان کے آنے تک فواد چوہدری ایڈیٹرز کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں اپنے دور حکومت میں پرنٹ میڈیا کے فروغ کے لیےاپنی "نامعلوم خدمات” کا تذکرہ بڑے فخریہ انداز میں کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد عمران خان گولی کے زخم کی وجہ سےجدید بیساکھی کے سہارے ڈرائنگ روم میں آ گئے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انہوں نے حسب معمول جنرل باجوہ سے کہانی شروع کی اور کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو میں وہی مشق ستم ر ہے۔
گفتگو کا بیشتر حصہ تو اسی مواد پر مشتمل تھا جواب تمام پاکستانیوں کو ازبر ہو چکا ہے، تھوڑا فرق یہ تھا کہ عام طور پر عمران خان کسی بھی ملاقات میں یک طرفہ تقریر کرتے ہیں ، یہ ملاقاتیں زیادہ تر ان کی میڈیا ٹیم کے منتخب کردہ اینکرز یا یو ٹیوبرز کے ساتھ ہوتی ہیں ،مگر یہاں چونکہ تجربہ کار صحافی اور مدیر سامنے بیٹھے تھے لہذا سوال جواب کی صورت میں انہیں خاصی مشکل کا سامنا ہوا اور اس کے نتیجے میں کئی تضادات ابھر کر سامنے آئے۔ مثال کے طور پر انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم کی پریس کانفرنس کو تضحیک آمیز انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ مجھے مشورہ دینے والے کون ہوتے ہیں میں ملک کا وزیراعظم تھا ، پھر اگلی ہی سانس میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بننے کے بعد میں نے جنرل باجوہ کو کہا کہ ہمیں دس پندرہ کرپٹ سیاستدانوں کو نشان عبرت بنانا ہے مگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوئے۔ بلکہ کرپشن کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بتے رہے۔ یعنی ایک طرف توعمران خان فوج کے کسی مشورے کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے مگردوسری جانب وہ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کے لیے فوج کی مدد اور سرپرستی کے طلب’گار تھے۔ انہوں نے یہ بات بھی دہرائی کے ہمارے حکومت کمزور تھی، قانون سازی سمیت کئی معاملات کے لیے آئی ایس آئی کو کہنا پڑتا تھاتو وہ ہمیں بندے پورے کرکے دیا کرتے تھے۔عمران خان کے مطابق جنرل باجوہ عثمان بزدار کو ہٹا کر علیم خان کو وزیر اعلی پنجاب بنانے پر زور دے رہے تھے ،میں اس کے لئے تیار بھی ہو گیا مگر پرویز الٰہی اور جہانگیر ترین کے لوگ انہیں ووٹ دینے پر آمادہ نہ تھے۔عمران خان کے بقول علیم خان نے ایل ڈی اے کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کر کے 200 ارب روپے کے پلاٹ بیچ ڈالے۔ مگر عمران خان یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اس سب کے باوجود علیم خان سینئر وزیر کے طور پر ان کے اس قدر قریب کیوں رہے اور پھر اگر کرپشن کیخلاف اتنا بے لچک رویہ رکھتے تھے تو وہ "کسی” کے کہنے پر بقول خود علیم خان کو وزیراعلی بنانے پر راضی کیوں ہوئے؟؟
تمام تر گفتگو میں عمران خان نے جہاں فوج کی جانے والی قیادت کو جارحانہ انداز میں نشانہ بنایا، وہیں نئی قیادت کے حوالے سے خصوصی احتیاط برتی اور بین السطور یہی پیغام دیا کہ ان کی اقتدار میں واپسی کے لیے "نیوٹرل” کا اسٹیٹس ترک کیا جائے تو راوی چین ہی چین لکھےگا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ کمزور حکومت کبھی نہیں لوں گا اور اگر طاقتور حکومت ملی تو فوج کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ اگر آئی ایس آئی ٹیلی فون ریکارڈنگ جیسے معاملات سے نکل کر احتساب کا نظام بہتر بنانے میں تعاون کرے تو ملک معاشی طور پر خوب ترقی کرے گا( ملاقات میں موجود کئی شرکا کا خیال تھا کہ اس جملے میں پنہاں پیغام ہی خان صاحب کے دعووں اور عمل میں تضاد ثابت کرنے کیلئے کافی ہے )