نمبرگیم پوری ہونے پراعتماد کے ووٹ کا عمل آگے بڑھایا جائے گا۔فائل فوٹو
نمبرگیم پوری ہونے پراعتماد کے ووٹ کا عمل آگے بڑھایا جائے گا۔فائل فوٹو

پنجاب میں گورنر راج کا امکان؟

نواز طاہر:
پنجاب اسمبلی کی تحلیل رکوانے کیلئے گورنر کی طرف سے وزیر اعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریکوں کے نتیجے میں بظاہر وقتی طور پر پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا عمل رک گیا ہے اور آئینی و قانونی پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں۔ اب معاملہ عدلیہ کی طرف کسی تشریح اور فیصلے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ گورنر کی طرف سے آئین کے تحت حاصل اختیارات کے تحت جاری حکم نامے کی تعمیل میں حکومتی اتحاد کے موقف کی روشنی میں تاحال اسمبلی کے اجلاس کا نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ بلکہ جاری اجلاس بھی جمعے تک ملتوی کردیا گیا ہے۔

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی ذمہ داری ادا نہ کرنا آئین سے انحراف ہے۔ یہ انحراف سنگین جرم ہے جس کے تحت کارروائی بھی آئین ہی میں واضح ہے۔ اور یہ صورتحال آگے بڑھ کر گورنر راج کی طرف جاسکتی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے آئینی ماہرین کا کہنا ہے اسمبلی کے جاری اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ کہنے کیلئے گورنر کا اختیار ساکت ہوجاتا ہے۔ تاہم عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاسکتی ہے ۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے اعلان کر رکھا ہے کہ صوبہ خیبر پختون کے ساتھ پنجاب کی اسمبلی بھی جمعے کو تحلیل کردی جائے گی۔ لیکن اس سے پہلے پی ڈی ایم کی قیادت یہ تحلیل رکوانے کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ جس کے تحت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کیخلاف پیر کی شب رات گئے عدم اعتماد کی تحریکیں اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروائی گئی تھیں اور گورنر نے بھی وزیراعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے حکمنامہ جاری کیا تھا۔ اس کے تحت آج اکیس دسمبر بدھ کی سہ پہر چار بجے اجلاس بھی طلب کیا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی کے حکومتی اتحاد کا موقف ہے کہ ابھی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اور اجلاس ختم ہونے تک نیا اجلاس طلب نہیں کیا جاسکتا۔

ادھر پنجاب میں حکومتی اور اپوزیشن اتحادوں کے الگ الگ موقف پر شدید ردِ عمل سامنے آرہا ہے۔ ایک جانب عمران خان اسمبلی توڑنے پر مصر ہیں۔ تو دوسری طرف پی ڈی ایم کی جانب سے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ اگر گورنر کے آئینی حکم کی تعمیل کے بجائے معاملہ بلڈوز کرنے کی کوشش کی گئی تو گورنر سے کہا جائے گا کہ ایوانِ وزیر اعلیٰ سیل کردیا جائے۔ لیکن سیاسی موقف کے برعکس آئینی و قانونی ماہرین کا موقف الگ ہے۔ تاہم اس میں بھی پی ٹی آئی کے اراکین کی رائے الگ ہے۔

 

اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری و آئینی ماہر وسیم ممتاز ملک کا کہنا تھا کہ، آئین کے آرٹیکل ایک سو تیس کے سب سیکشن سات کے تحت گورنر کا یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ جب بھی چاہے وزیر اعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہہ سکتا ہے اور اجلاس طلب کرسکتا ہے۔ اس میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ کب کہہ سکتا ہے اور کب نہیں کہہ سکتا۔ اور نہ ہی یہ لکھا ہے کہ اسمبلی کا سیشن جاری ہو تو گورنر کا یہ اختیار نہیں رہتا یا گورنر ایسا کہہ نہیں سکتا۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ، آئین بڑا واضح ہے۔ جب گورنر آئین کے تحت یہ ہدایت کرے گا تو اس کے بعد اسمبلی کا کام اس پر عملدرآمد کرنا ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹ کوئی نہیں بن سکتا۔ اس کے راستے میں رکاوٹ بننا آئین سے انحراف ہے۔ اس استفسار پر کہ اگر اسمبلی سیکرٹریٹ اور ذمہ دار آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں تو یہ آئین سے انحراف ہوگا؟ ان کا کہنا تھا کہ جب اسمبلی گورنر کے آئینی احکامات کی خلاف ورزی اور انحراف کرے گی تو گورنر، وفاق کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے وفاقی حکومت کو آگاہ کرے گا۔ اور اس صورت میں صوبے میں گورنر راج کا نفاذ ہوسکتا ہے اور شائد کچھ لوگ یہی چاہتے ہوں گے۔

قانونی ماہر احسن ضیا بنگش ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ، آئین کے تحت اسمبلی کے سیکریٹری نے گورنر کے احکامات کی تعمیل کرنی ہے۔ اس سے انحراف کسی صورت ممکن نہیں۔ جہاں تک یہ کہنے کا تعلق ہے کہ جاری سیشن کے دوران گورنر کے احکامات کی تعمیل میں نیا اجلاس طلب کرنا اور اعتماد کا ووٹ لینے کو التوا میں ڈالنے کیلئے وقت کا انتظار کیا جاسکتا ہے، یہ قطعی طور پر غلط ہے۔ اس معاملے میں آئین بڑا کلیئر ہے اور کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ، نہ صرف آئین بہت واضح ہے۔ بلکہ اسمبلی کے رولز آف پروسیجر میں بھی واضح لکھا ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک آئے گی تو سیکریٹری اسمبلی، تمام اراکین کو اس کے نوٹس کی کاپی سرکولیٹ کرے گا۔ ایسا ہی اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی صورت میں ہوگا۔ اس کی نفی بنیادی طور پر آئینی روگردانی تصور ہوگی اور یہ عمل قابل گرفت ہوگا ۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی کا اجلاس پیر کی شب اسپیکر محمد سبطین خان کی صدارت میں ہوا۔ لیکن کسی کارروائی کے بغیرکورم کی نشاندہی کی نذر ہوگیا اور اسپیکر محمد سبطین خان نے اعلان کیا کہ اب اجلاس جعہ کو بعد دوپہر دو بجے ہوگا۔ جبکہ گورنر کی طرف سے اعتماد کے ووٹ کیلئے آج بدھ کو شام چار بجے اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ لیکن اس ضمن میں یہ سطور لکھے جانے تک کوئی نوٹیفیکیشن بھی جاری نہیں کیا جاسکا تھا۔ البتہ ایسی اطلاعات تھیں کہ اسپیکر محمد سبطین خان نے گورنر کی طرف سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے حوالے سے آج کے اجلاس طلب نہ کیے جانے پر رولنگ تیار کی ہے جو کسی وقت بھی جاری ہوسکتی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جاری سیشن کے دوران گورنر کی ہدایت کے مطابق نیا اجلاس طلب نہیں کیا جاسکتا۔