ادویات- سٹی اسکین اور ایم آر آئی کی سہولیات موجود ہونے کے باوجود مریضوں کو ٹرخا دیا جاتا ہے۔فائل فوٹو
ادویات- سٹی اسکین اور ایم آر آئی کی سہولیات موجود ہونے کے باوجود مریضوں کو ٹرخا دیا جاتا ہے۔فائل فوٹو

لیاری جنرل اسپتال میں 28 کروڑکی کرپشن

محمد اطہر فاروقی:
کراچی کے لیاری جنرل اسپتال میں طبی آلات، بستر اور دیگر اشیا کی خریداری میں 28 کروڑ کی خورد برد کا انکشاف ہوا ہے۔ مریضوں کیلیے 66 بیڈ اور گدے کی خریداری میں فی سیٹ 12 لاکھ روپے میں خریدا گیا۔ من پسند کمپنی سے طبی آلات کی خریداری کیلئے ٹھیکہ تفویض کیا گیا۔ خریداری کیلئے ایک ایسی کمپنی کو خلاف ضابطہ ٹھیکہ دیا گیا، جس کی کراچی میں کوئی ورکشاپ نہیں۔ کرپشن میں ملوث عناصر نے خریداریوں میں سپرا رولز کی دھجیاں بکھیر دیں۔ ترقیاتی کام نہ ہونے کے باوجود ٹھیکدار کو 5 کروڑ روپے کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی۔ اسپتال کے تمام وارڈز خستہ حال ہیں۔ عمارتیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔ پانی کے نلکے ہیں نہ پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔ لفٹ اور جنرنیٹر کی مرمت اور فیول کے نام پر کروڑوں روپے اینٹھے جا چکے ہیں۔ کرپشن کے باعث اسپتال میں مریضوں کیلئے ادویات کی فراہمی، سٹی اسکین، الٹرا ساؤنڈ اور دیگر ٹیسٹوں کی سہولت بھی موجود نہیں۔
لیاری کے علاقے میں قائم سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال میں طبی الات اور دیگر خریداری میں 28 کروڑ کے خود برد کا انکشاف ہوا ہے۔اپنی من پسند کمپنی سے ایک بیڈ 12 لاکھ روپے میں خریدا گیا ہے جس میں لوکل اور غیر معیاری گدے استعمال کیے گئے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لیاری جنرل اسپتال کراچی و میل نرسنگ کالج میں کرپشن پروفیسر انجم رحمان، کالج کی پرنسپل شبانہ بلوچ، عزیرلال، رستم بلوچ، حوا بلوچ اور مہرالنسا شیخ سمیت دیگر افراد ملوث ہیں۔ مذکورہ کرپشن مافیا نے سابقہ ایم ایس ڈاکٹر حفیظ ابڑو کی ملی بھگت سے لیاری جنرل اسپتال کے 2021ء اور 2022ء کے بجٹ میں 28 کروڑ روپے کا ہیر پھیر کیا۔

ذرائع کے مطابق سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال کراچی کے سال 2021-22 کے سالانہ بجٹ میں مختص شعبہ طب کے مختلف طبی و جراحی آلات کی خریداری میں 28 کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی۔ کرپشن مافیا نے لیاری جنرل اسپتال کے لیے اپنی ذاتی بنائی ہوئی خود ساختہ جعلی کمپنی آئیکونک جنرل ٹریڈنگ کو ٹھیکہ دیا۔ مذکورہ کمپنی نے 28 کروڑ میں سے 21 کروڑ روپے سے زائد کے غیر معیاری طبی آلات و دیگر سامان کی مارکیٹ ریٹس سے 25 فیصد زائد ریٹس پر غیر قانونی خریداری کی۔

سندھ سپرا رولز کے مطابق جس کمپنی سے مشینری خریدی جائے، اس کا ورکشاپ یا مینٹننس اینڈ ریپئر یونٹ کا اسی شہر میں ہونا لازمی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اس کمپنی کا نہ تو کراچی اور نہ ہی سندھ میں کوئی ورکشاپ موجود ہے۔ کرپشن مافیا نے اپنی من پسند کمپنی سے مریضوں کیلئے 66 بسترخریدے۔ غیر معیاری گدے ہونے کے باوجود صرف ایک سیٹ 12 لاکھ روپے میں خریدا گیا۔ اس طرح 66 بیڈز غیر معیاری گدوں کے ساتھ 7 کروڑ 92 لاکھ کے خریدے گئے۔ نہ صرف گدے، بلکہ دیگر اشیاشیائ￿ بھی اس جعلی کمپنی سے نہ صرف غیر معیاری بلکہ انتہائی مہنگے داموں غیر قانونی طریقے سے سابقہ ایم ایس کی ملی بھگت سے خریداری کی گئی۔

امت کو موصول ہونے والے دستاویزات کے مطابق حال ہی میں کرپشن مافیا نے ترقیاتی کاموں ،گاڑیوں اور کمپوٹرز کی خریداری سمیت دیگر کاموں کی مد میں ٹھیکدار کو 5 کروڑ روپے جاری کردیئے ہیں۔ جبکہ اسپتال میں کئی برس سے کوئی ترقیاتی کام تک نہیں ہوا ہے۔ اسپتال کی عمارت مکمل خستہ حال ہے۔ وارڈوں کی چھتیں گرنے لگیں۔ واش رومز کے نل نہیں اور بیسن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کھڑکیاں اور دروازے سمیت او پی ڈی کی عمارت بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔ لفٹ اور جنریٹر آئے روز خراب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ لفٹ اور جرنیٹرز کی مرمت کیلئے بھی کرپشن مافیا کروڑں روپے ہڑپ کر چکی ہے۔ جس میں فیول کی مد میں ملنے والی رقم میں بھی خوردبرد کی گئی۔ اسپتال کے مختلف کمروں میں متعدد پنکھے خراب پڑے ہیں۔ وارڈوں میں بجلی کی ننگی تاریں گزاری جاری ہیں، جس کی وجہ سے مریض بھی خوفزدہ ہیں۔ کرپشن مافیا نے اسپتال کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی کام ظاہر کر کے ٹھیکدار کو 5 کروڑ روپے کا بل ادا کروا دیا، تاہم اسپتال کی عمارت میں کسی قسم کا کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا۔

لیاری جنرل اسپتال کی او پی ڈی میں آنے والے مریضوں کو ادویات موجود ہونے کے باوجود، فراہم نہیں کی جا رہیں۔ اسپتال کی ایمرجنسی میں رات کے اوقات ڈاکٹرز کی عدم موجودگی سے مریضوں کو سول اسپتال بھیج دیا جاتا ہے۔ اسپتال میں صفائی کے ابتر نظام، پینے کا صاف پانی مہیا نہ ہونے اور مریضوں و تیمارداروں کے لئے پارکنگ نہ ہونے سے مریضوں کو پریشانی کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ اسپتال کی او پی ڈی میں آنے والے یومیہ سیکڑوں مریض بغیر ادویات کے گھر لوٹ جاتے ہیں ۔ اسپتال میں ایم آر آئی اور سٹی اسکین کی سہولت موجود تو ہے، لیکن صرف او پی ڈی کے اوقات میں ایم آر آئی اور سٹی اسکین کیا جا رہا ہے اور وہ بھی محض ہفتے میں 3 روز کیلئے۔ ایم آر آئی اور سٹی اسکین کے لئے آنے والے مریضوں کو پہلے او پی ڈی میں چیک اپ کروانا اور فائل بنوانا لازمی ہوتا ہے، جس کے بعد ان کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ پارکنگ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں سمیت تیمارداروں کی گاڑیاں چوری ہونا بھی معمول بن چکا ہے۔ دوسری جانب اس کرپشن مافیا میں شامل لیاری نرسنگ کالج کی پرنسپل شبانہ بلوچ کے تبادلے کے باوجود وہ کالج چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اور غیر قانونی طریقے سے اسپتال میں موجود ہیں۔ جبکہ نئے آنے والے پرنسپل کو کرپشن مافیا اسپتال میں داخل نہیں ہونے دے رہی۔