مسلمان جنات آیۃ الکرسی کی برکت سے علی کو چھڑا لائے۔فائل فوٹو
 مسلمان جنات آیۃ الکرسی کی برکت سے علی کو چھڑا لائے۔فائل فوٹو

’’کافرجنات خاص قسم کی خوشبو سے بھاگتے ہیں‘‘

میگزین رپورٹ:
ایمان بالغیب نہ صرف اسلامی عقیدے کی بنیادی اساس ہے۔ بلکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے بھی اسے سب صفات میں پہلی اور بنیادی صفت قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: ’’یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں اور راہ بتلانے والی ہے، خدا سے ڈرنے والوں کو۔ (2) وہ (خدا سے ڈرنے والے) لوگ ایسے ہیں کہ یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر اور قائم کرتے ہیں نماز کو اور جو کچھ دیا ہے ہم نے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (البقرہ)
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ہر مسلمان پر غیب کی باتوں پر اس طرح ایمان رکھنا لازم ہے کہ اس میں کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ درحقیقت غیب کا اطلاق ان چیزوں پر ہوتا ہے، جو بظاہر ہم سے پوشیدہ ہوں۔ لیکن اللہ رب العزت اور اللہ کے پیارے رسولؐ نے ہمیں ان کے بارے میں آگاہ فرمایا ہو۔ یہی بات ابن مسعودؓ کی روایت کردہ حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔
جنات بھی وہ حقیقت ہیں جن کے بارے میں ہمیں اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسولؐ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے ذریعے پتا چلا ہے۔ جنات ہمارے لیے ایک غیب کی خبر ہیں۔ جن کا وجود قرآن و حدیث میں دیئے گئے دلائل سے ثابت ہے۔ قرآن کریم کی بعض آیات میں جنات کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہے۔
-1 ’’اور جبکہ ہم جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے، جو قرآن سننے لگے تھے، غرض جب وہ لوگ قرآن کے پاس آپہنچے، کہنے لگے کہ خاموش رہو، پھر جب قرآن پڑھا جا چکا تو وہ لوگ اپنی قوم کے پاس خبر پہنچانے کے واسطے واپس گئے‘‘۔ سورۃ الاحقاف۔
-2 ’’اے جماعت جنات کی اور انسان کی کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے، جو تم سے میرے احکام بیان کیا کرتے تھے اور تم کو اس آج کے دن کی خبر دیا کرتے تھے، وہ سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر (جرم کا) اقرار کرتے ہیں اور ان کو دنیوی زندگانی نے بھول میں ڈال رکھا ہے اور یہ لوگ مقرر ہوں گے کہ وہ کافر تھے‘‘۔ سورۃ الانعام۔
-3 ’’اے گروہ جن اور انسان اگر تم کو یہ قدرت ہے کہ آسمان اور زمین کی حدود سے کہیں باہر نکل جائو تو (ہم بھی دیکھیں) نکلو، مگر باوجود زور کے نہیں نکل سکتے (اور زور ہے نہیں)‘‘۔ سورۃ الرحمن۔
-4 ’’آپ (ان لوگوں سے) کہیے کہ میرے پاس اس بات کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا پھر (اپنی قوم میں واپس جاکر) انہوں نے کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے‘‘۔ سورۃ الجن۔
-5 ’’اور بہت سے لوگ آدمیوں میں ایسے تھے کہ وہ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے، سو ان آدمیوں نے ان جنات کی بددماغی اور بڑھا دی‘‘۔ الجن
اسی طرح احادیث کے ذخیرہ میں بھی جابجا آپؐ کے اقوال سے نہ صرف جنات کی دنیا میں موجودگی ثابت ہوتی ہے۔ بلکہ آپ کے جنات سے ملنے کے واقعات اور ان کے کافر اور مسلم ہونا بھی ثابت ہے۔
-1 حدیث کی مستند کتاب صحیح مسلم میں احادیث صحیحہ کے ذیل میں ابن مسعودؓ سے مروی حدیث میں ذکر ہے ’’ایک مرتبہ آپؐ لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گئے۔ سب صحابہ کرامؓ اس واقعے پر شدید پریشان ہوئے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ کہیں آپؐ کو جنات یا کسی اور غیر مرئی مخلوق نے اٹھا تو نہیں لیا۔ قوم نے یہ ساری رات پریشانی کے عالم میں جاگتے ہوئے گزاری۔ صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ آپ غار حرا کی جانب سے تشریف لارہے ہیں۔ ہم نے آپؐ کو دیکھتے ہی نہایت محبت سے کہا۔ یا رسول اللہ آپ ہم سے گم ہو گئے تھے اور قوم نے ساری رات پریشانی کے عالم میں آپؐ کو تلاش کرتے ہوئے گزاری ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ میرے پاس جنات کی قوم کا ایک فرد آیا تھا اور میں اس کے کہنے پر اس کے ساتھ گیا تھا۔ تاکہ جنات کی قوم کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں آگاہ کروں‘‘۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپؐ ہمیں اپنے ساتھ لے گئے اور جنات اور ان کی جانب سے جلائی جانے والی آگ کے نشانات دکھائے۔
-2 اسی طرح ابی سعید خذریؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ’اے سعید تم بکریوں اور وادیوں کو زیادہ پسند کرتے ہو۔ پس جب تم اپنی بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ کسی وادی میں ہو اور نماز کا وقت ہو جائے تو خوب زور سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ اذان کی آواز جہاں تک جاتی ہے، اس کے سننے والے انسان و جنات اور تمام مخلوقات قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے اس اذان کی گواہی دیں گے‘‘۔
اس کے علاوہ بھی احادیث مبارکہ میں جنات کے وجود کے بارے میں کئی واضح دلائل موجود ہیں۔
جنات کا نظر نہ آنا ان کے نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے۔ بلکہ دنیا میں ایسی کتنی چیزیں ہیں کہ ہم انہیں دیکھ تو نہیں سکتے۔ لیکن اس کے باوجود وہ موجود ہیں۔ قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ اس بات کو انتہائی واضح اور صاف طور پر بتاتے ہیں کہ جنات کو آگ سے تخلیق کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے۔
-1 اور جنات کو خالص آگ سے پیدا کیا۔ الرحمن۔
-2 اور جن کو اس کے قبل آگ سے کہ وہ ایک گرم ہوا تھی، پیدا کر چکے تھے۔ الحجر۔
-3 حق تعالیٰ نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا، تجھ کو اس سے کیا امر مانع ہے جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا۔ کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے۔ الاعراف۔ حدیث کی کتابوں مسلم اور احمد میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’’فرشتوں کو اللہ نے نور سے پیدا فرمایا۔ جنات کو خالص آگ سے اور آدم کو اس سے جس کی صفات تم میں ہیں‘‘۔
یہاں پر کئی کم عقل لوگوں کے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر جنات کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے تو پھر کافر جنات کو آگ کا عذاب کس طرح دیا جائے گا۔ یہ بات واضح ہے کہ جس طرح انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا کہ انسان کی اصل حقیقت مٹی ہے نہ کہ اس کے جسم میں واضح طور پر مٹی نظر آتی ہے۔ جبکہ انسان کو مٹی کے ذریعے بھی عذاب میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بارہا یہ بات ثابت ہے کہ ابلیس اگرچہ آگ سے بنا ہے۔ مگر وہ آگ کی حقیقت پر باقی نہیں۔ بلکہ اسے پیدا کرنے میں آگ کو اصل مادے اور جوہر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ غصے کے وقت شیطان انسان کے خون کے ساتھ گردش کرتا ہے۔ اگر ابلیس اور شیاطین آگ کی صفت پر باقی ہوتے تو انسان اس وقت ان کی آگ سے جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ ان سب دلائل کے باوجود سب سے احسن طریقہ یہ ہے کہ ہم کہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
جس طرح جنات کی تین اقسام ہیں۔ اسی طرح وہ رہنے کے لیے بھی تین طرح کے مقامات کو اختیار کرتے ہیں۔ بعض انسانوں سے خالی مقامات جیسے کھنڈرات اور ریگستانوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض گندگی اور پیشاب کے مقامات کو۔ جبکہ بعض انسانوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ اکثر ریگستانوں کی جانب نکل جایا کرتے تھے اور جنات کو دعوت دینے کے علاوہ انہیں قرآن اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا کرتے تھے۔ بخاری اور مسلم شریف میں یہ بات ابن عباسؓ اور ابن مسعودؓ کی روایت کردہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ جنات گندگی اور کچرا پھینکنے کے مقامات پر اس لیے رہتے ہیں کیونکہ وہ انسانوں کے بچائے گئے کھانوں کو کھاتے ہیں۔ جنات بیت الخلا میں بھی رہتے ہیں جیسا کہ زید ابن ارقمؓ کی حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’یہ جنات وغیرہ پیشاب کے مقامات پر حاضر ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی بیت الخلا کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھ لے۔ ’’اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث‘‘۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میں نے ایک مسلمان جن سے پوچھا کہ آیا وہ بیت الخلا میں رہتا ہے۔ اس نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر میں نے مذکورہ بالا حدیث کا حوالہ دیا۔ جس کے مطابق جنات بیت الخلا میں بھی رہتے ہیں تو اس نے جواباً کہا، یہ کافر اور مشرک جنات کے ساتھ خاص ہے نہ کہ مسلم جنات کے ساتھ۔ پس جن کے ساتھ ہونے والی اس بات چیت سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ کفار جنات خاص قسم کی خوشبویات سے بھاگتے اور متنفر ہوتے ہیں۔ جیسے مشک وغیرہ کی پاکیزہ خوشبو۔ جبکہ مسلمان جنات اس سے محبت رکھتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں جیسے عام مسلمان اور کفار وغیرہ۔
اسی طرح جنات زیر زمین سوراخوں اور جانوروں کے بلوں میں بھی رہتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ قتادہ، عبداللہ بن سرجس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’تم میں کوئی بھی ہرگز بلوں میں پیشاب نہ کرے۔ قتادہؓ سے جب دریافت کیا گیا ہے کہ بلوں میں پیشاب کرنے میں کیا قباحت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ان میں جنات بسیرا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنات اونٹوں کی پیشاب کی جگہ پر بھی رہتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی احادیث میں مذکور ہے کہ وہ شیطان کے چھپنے کی جگہ ہے۔