گستاخوں کا قانونی تعاقب جاری رکھیں گے-علما کرام۔فائل فوٹو
 گستاخوں کا قانونی تعاقب جاری رکھیں گے-علما کرام۔فائل فوٹو

’’گستاخانِ رسول کے خلاف 100 سے زائد مقدمات زیرسماعت ہیں‘‘

نمائندہ امت:   پہلا حصہ
سوشل میڈیا پر جاری بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف ’’تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ پاکستان‘‘ پچھلے چھ برس سے بھرپور آئینی و قانونی جدوجہد کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں تنظیم کے مرکزی صدر علامہ قاری نوید مسعود ہاشمی اور جنرل سیکریٹری حافظ احتشام احمد کے ساتھ ’’امت‘‘ کی ایک طویل نشست رہی۔ اس موقع پر تنظیم کے قائدین کے ساتھ تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے اہداف، سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم، اس کے اسباب و محرکات، اس کے سدباب، اس میں ملوث مجرمان کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے ملک بھر میں جاری وسیع کریک ڈاؤن اور اس سے متعلقہ دیگر معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی، جو کہ نذر قارئین ہے۔

امت: تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا مقصد کیا ہے؟

قاری نوید مسعود ہاشمی: سوشل میڈیا (فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب، واٹس ایپ وغیرہ) پر گزشتہ تقریباً چھ برس سے بدترین گستاخانہ مہم جاری ہے۔ مذکورہ گستاخانہ مہم کے ذریعے سوشل میڈیا پر اللہ تعالیٰ، جناب رسول اللہ ﷺ، اہل بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور قرآن کریم سمیت دیگر شعائر اسلام کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر کی جارہی ہے۔ مذکورہ گستاخانہ مہم کے نتیجے میں اسلامی احکامات اور دینی معلومات سے نابلد ہماری نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے علمی اور شریف گھرانوں کے نوجوان بچے بھی مذکورہ گستاخانہ مہم سے متاثر ہوکر مرتد، گستاخ اور ملحد بن رہے ہیں۔ اس خطرناک صورتحال میں اپنی آنے والی نسلوں کے ایمان اور مستقبل کو محفوظ بنانے بالخصوص اللہ تعالیٰ، جناب رسول اللہ ﷺ، اہل بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور قرآن کریم سمیت دیگر شعائر اسلام کی عزت، حرمت اور تقدس کے تحفظ کیلئے ہمارے بانی صدر طارق اسد ایڈووکیٹؒ نے ’’تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا۔ چونکہ طارق اسد ایڈووکیٹؒ ہی وہ واحد شخصیت تھے، جو سوشل میڈیا پر اس بدترین فتنے کے آغاز سے ہی اس کے خلاف عدالتوں میں قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ تحریک کی صدارت کا منصب سنبھالیں اور مجھے صرف عدالت تک ہی محدود رہنے دیں۔ لیکن ہم نے طارق اسد ایڈووکیٹؒ سے کہا کہ ہم آپ کی صدارت کے تحت اس عظیم مشن کا حصہ بنیں گے اور جو بھی ذمہ داری آپ ہمیں دیں گے، ہم اسے پورا کریں گے۔ لیکن طارق اسد ایڈووکیٹؒ کی رحلت کے بعد مجبوراً اس ذمہ داری کا بھاری پتھر مجھے اٹھانا پڑا۔ جبکہ تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ روز اول سے ملک کے جید عالم دین شیخ الحدیث مولانا مفتی مجیب الرحمن (راولپنڈی) ہیں۔ مذکورہ پلیٹ فارم کی تشکیل کا بنیادی مقصد سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مہم کے خاتمے سمیت مذکورہ بدترین گستاخانہ مہم میں ملوث مجرمان کو ان کے عبرتناک منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے آئینی، قانونی اور پرامن جدوجہد کرنا ہے۔ اس پلیٹ فارم پر تحفظ ناموس رسالت ﷺ و تحفظ شعائر اسلام کے لئے عملی طور پر سرگرم خوش نصیب شخصیات کو جمع کرکے تحفظ ناموس رسالت ﷺ و تحفظ شعائر اسلام کے لئے آئینی و قانونی جدوجہد کو مزید مؤثر بنایا جارہا ہے۔

امت: تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کا منشور کیا ہے؟

حافظ احتشام احمد: چار نکاتی منشور ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری بدترین گستاخانہ مہم کے خاتمے کیلئے ہر ممکن آئینی و قانونی اقدامات کرتے ہوئے تحفظ ناموس رسالت ﷺ، تحفظ ناموس صحابہ رضی اللہ عنہم، تحفظ ناموس اہل بیت رضی اللہ عنہم، تحفظ قرآن و تحفظ شعائر اسلام کو یقینی بنانا۔ سوشل میڈیا پر جاری بدترین گستاخانہ مہم میں ملوث مجرمان کا آئینی و قانونی طریقے سے تعاقب کرکے انہیں عبرتناک منطقی انجام تک پہنچانا۔ گستاخان رسول کے خلاف ملک بھر میں مقدمات کی پیروی کرنا اور گستاخان رسول کے خلاف مقدمات کی پیروی کے لئے فری لیگل ایڈ کی فراہمی۔

امت: تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان نے سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے سدباب کیلئے اور مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کو آئین و قانون کی گرفت میں لانے کے لئے کیا عملی اقدامات کئے؟

قاری نوید مسعود ہاشمی: جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ ہمارا مقصد آئینی و قانونی طریقے سے گستاخان رسول کو عبرتناک انجام تک پہنچانا اور سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا سدباب کرنا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا آغاز 2016ء کے آخر میں بھینسا، روشنی، موچی، دھوبی، مچھر، جُگن سمیت دیگر ناموں سے قائم ہونے والے گستاخانہ پیجز کے ذریعے ہوا تھا۔ اس کے خلاف ہمارے جنرل سیکریٹری حافظ احتشام احمد نے قانونی کاروائی کیلئے سب سے پہلے ایف آئی اے سے رجوع کیا تھا۔ جس کے فوراً بعد ہمارے نائب صدر سلمان شاہد ایڈووکیٹ نے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی۔ مذکورہ رٹ پٹیشن کی تاریخی سماعت ان دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین فاضل جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کی تھی۔ بعد ازاں مذکورہ رٹ پٹیشن پر فاضل جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے 116 صفحات پر مشتمل اردو زبان میں فیصلہ جاری کیا تھا، جو تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ مذکورہ رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث نامعلوم مجرمان کے خلاف پہلا مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے ہمارے جنرل سیکریٹری کی مدعیت میں درج کیا تھا۔ مذکورہ مقدمے میں توہین رسالت، توہین مذہب، توہین صحابہ و اہل بیت اور توہین قرآن کے متعلق تعزیرات پاکستان کی تمام دفعات سمیت انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ (PECA) 2016ء کی متعلقہ دفعات شامل کی گئی تھیں۔ مذکورہ مقدمے میں بننے والی جے آئی ٹی کی تحقیقات کی روشنی میں ابتدائی طور پر آٹھ مجرمان کی نشاندہی ہوئی تھی۔ جو سوشل میڈیا پر مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث تھے۔ ان میں سے چار مجرمان بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ جبکہ باقی چار مجرمان کو ایف آئی اے نے گرفتار کر لیا تھا۔ جن کے خلاف تقریباً چار سال تک مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد میں چلا۔ بعد ازاں جنوری 2021ء میں انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد نے مذکورہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ چار مجرمان میں سے تین مجرمان کو توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت جبکہ ایک مجرم کو توہین مذہب کا جرم ثابت ہونے پر دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔ مختصر یہ کہ 2017ء سے اب تک تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان نے سوشل میڈیا پرجاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کے خلاف قانونی کاروائی اور سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے سدباب کیلئے ہائیکورٹس میں متعدد رٹ پٹیشنز دائر کیں۔ ان کی پیروی کی۔ مذکورہ رٹ پٹیشنز کی سماعت کے بعد سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کے خلاف قانونی کاروائی اور سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے سد باب کیلئے اقدامات کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ، لاہور ہائیکورٹ، لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ اور لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے تاریخی فیصلے اور احکامات صادر کئے۔

امت: سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث کتنے مجرمان گرفتار ہوئے؟ کتنے مجرمان کے خلاف مقدمات کی سماعت جاری ہے اور کتنے مجرمان کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی جاچکی ہے؟

حافظ احتشام احمد: تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کے خلاف ملک بھر میں درجنوں مقدمات کی پیروی کر رہی ہے۔ 2017ء سے اب تک دس مجرمان کے خلاف درج مقدمات کا ٹرائل مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے نتیجے میں توہین رسالت کے مرتکب آٹھ مجرمان کو سزائے موت، ایک مجرم کو عمر قید، اور توہین مذہب کے مرتکب ایک مجرم کو دس سال قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ سوشل میڈیا پر توہین رسالت و توہین مذہب پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث سزا پانے والے مجرمان میں ملعون عبدالوحید، عرف ایاز نظامی (سزائے موت)، ملعون رانا نعمان رفاقت (سزائے موت)، ملعون ناصر احمد سلطانی (سزائے موت)، ملعون قیصر ایوب (سزائے موت)، ملعون امون ایوب (سزائے موت)، ملعونہ عنیقہ عتیق (سزائے موت)، ملعون ظفر بھٹی (سزائے موت)، ملعون ثناء اللہ (سزائے موت)، ملعون ابتسام المصطفیٰ (مذکورہ مجرم کو توہین رسالت کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ جسے انشاء اللہ سزائے موت میں تبدیل کر وایا جائے گا) اور ملعون پروفیسر انوار احمد (مذکورہ مجرم کو توہین مذہب کا جرم ثابت ہونے پر دس سال قید کی سزاء سنائی گئی ہے) شامل ہیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں کی عدالتوں میں اس وقت بھی 100 سے زائد ایسے گستاخان رسول کا ٹرائل جاری ہے۔ جو سوشل میڈیا پر بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث تھے اور اس وقت ایف آئی اے کے انسداد سائبر کرائم ونگ اور انسداد دہشت گردی ونگ کے زیر حراست جیلوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ مزید سینکڑوں ایسے گستاخان رسول کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ جو سوشل میڈیا پر بدترین گستاخان مواد کی تشہیر میں ملوث ہیں اور مرحلہ وار ان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔

امت: آپ نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث آٹھ مجرمان کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ ان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا؟

حافظ احتشام احمد: یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ ہمارے ملک کے قوانین بالخصوص فوجداری قوانین میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ انہی قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے پاکستان میں توہین رسالت کے مرتکب کسی بھی مجرم بالخصوص مذکورہ مجرمان کی سزائے موت پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ پہلے تو ٹرائل کورٹ میں ان مجرمان کے خلاف مقدمات کا ٹرائل چلتا ہے۔ ٹرائل کورٹ کیلئے ٹرائل مکمل کرنے کی کوئی مدت قانون میں متعین نہیں ہے۔ ٹرائل کورٹ کی مرضی کہ وہ مقدمے کا فیصلہ ایک سال میں کرے یا دس برس لگا دے۔ اس کے بعد اگر ٹرائل کورٹ مجرمان کو جرم ثابت ہونے پر سزا سنا دے تو پھر مجرمان کو قانون نے اپنی سزا کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق دیا ہے۔ اگر مجرم ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر دے تو پھر ہائیکورٹ کیلئے بھی مجرم کی اپیل پر فیصلہ کرنے کیلئے قانون میں کوئی مدت متعین نہیں۔ ہائیکورٹ بھی اگر مجرم کی سزا کو برقرار رکھے تو پھر اسے قانون نے سپریم کورٹ میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف بھی اپیل دائر کرنے کا حق دے رکھا ہے۔ پھر سپریم کورٹ کیلئے بھی قانون میں کوئی مدت متعین نہیں کہ اس نے کتنے عرصے میں اپیل کا فیصلہ کرنا ہے۔ سپریم کورٹ چاہے تو دس دس سال تک اپیل کو زیر التوا رکھ سکتی ہے۔ یہی اب تک ہو رہا ہے۔ اگر سپریم کورٹ بھی کسی مجرم کی سزائے موت کو برقرار رکھ دے تو پھر قانون نے مجرم کو اپنی سزا کی معافی کیلئے صدر مملکت کو بھی رحم کی اپیل کرنے کا حق دے رکھا ہے۔ پھر جب تک صدر مملکت بھی رحم کی اپیل پر کوئی فیصلہ نہ کر دے۔ اس وقت تک کسی سزائے موت کے مجرم کی سزا پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا۔ ان قانونی تقاضوں کو پورا کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان میں توہین رسالت کے مرتکب کسی بھی مجرم کی سزائے موت پرعملدرآمد نہیں ہو سکا۔ (جاری ہے)