پاکستان سے یومیہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی بیرون ملک منتقلی کا انکشاف

کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر)پاکستان سے یومیہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی بیرون ملک منتقلی کا انکشاف ہوا ہے، یہ ڈالر زمینی راستے سے افغانستان اور ایران منتقل کیے جاتے ہیں ۔

ڈرائی فروٹ، سبزی ، پھل اور کوئلہ کے امپورٹرز بھی افغانستان کیلئے روزانہ ڈیڑھ کروڑ ڈالرکی ادائیگیاں کرتےہیں جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ۔ یہ وہ ڈالرز ہیں جو گرے مارکیٹ سے اٹھائے جاتے ہیں ۔

زمینی راستوں سے افغانستان پہنچنے والے ڈالر کے بدلے ہنڈی کا کاروبار کرنے والے فی ڈالر 255 روپے ادا کرتے ہیں ، کئی خاندانوں نے رقوم کی منتقلی کو دھندا بنالیا ، ایک ٹرپ پرڈیڑھ لاکھ روپے کمالیتے ہیں ۔ہر روز 15 ہزار افراد زمینی راستے سے افغانستان اور ایران جاتے ہیں ۔افغانستان جانے والے ڈالرز کی روک تھام کے لئے ایکس چینج کمپنیوں نے حکومت کو خط لکھ دیا ۔

اہم ذرائع نے بتایا کہ ڈالر کے ریٹ 225 اور 226 روپے تک رکنے کی وجہ سے ہنڈی کا کاوربار کرنے والوں نے مرکزی بینک اور کمرشل بینکوں کے زرمبادلہ کے ذخائرعملاً ختم کردیئے ہیں، دوسری جانب ڈالر کے بدلے ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں نے پاکستانیوں کو پرکشش آفرز دے رکھی ہیں ، بیرون ملک سے ایک ڈالر اگر بینکوں سے بھیجا جائے تو پاکستان میں موجود شخص کو 225 یا 226 روپے ملتے ہیں جبکہ حوالے سے بھیجے والی رقم 255 روپے تک پہنچ گئی ہے جس کے باعث بیرون ملک سے آنے والے زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی آگئی ہے ۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان سے ہر ماہ کروڑوں ڈالر کی غیر قانونی منتقلی کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کی روک تھام کیلئے حکومت نے اب تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے ، ذرائع نے بتایا کہ پاکستان سے یومیہ زمینی راستے کے ذریعے افغانستان جانے والوں کی تعداد 15 ہزار ہے جنہیں ایک ہزار ڈالر فی کس لے جانے کی اجازت ہے ، ماضی میں یہ افراد 10 ہزار ڈالر لے جایا کرتے تھے، ڈالرز کی تعداد 10 ہزار سے گھٹاکر ایک ہزار کرنے پر کرنسی کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں نے کئی خاندانوں کو اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث کرلیا جنہیں پاکستان سے ڈالر افغانستان پہنچانے پر ہر چکر میں ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے ادا کردیے جاتے ہیں ، ان پیشہ ور خاندانوں کے علاوہ افغانستان جانے والے پاکستانی اور افغانی بھی ہر چکر میں ایک ہزار ڈالر لے کر جاتے ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہوتا ہے ، بارڈرز پر رشوت ادا کرکے ڈالر کی منتقلی کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے جنہیں ڈالر کی منتقلی کیلئے ایک یا دس ہزار ڈالر کی کوئی قید نہیں ، انہیں ان کی رشوت کی رقم کے حساب سے ڈالرز منتقل کرنے کی چھوٹ دی جاتی ہے ۔

معلوم ہوا ہے کہ افغانستان سے یومیہ 10 ملین ڈالر کا کوئلہ امپورٹ ہورہا ہے جبکہ سبزی اور پھلوں کے علاوہ ڈرائی فروٹ کے امپورٹرز بھی افغانستان کے لیئے یومیہ 5 کروڑ ڈالر کی ادائیگیاں کرتے ہیں ، یہ امپورٹرز زیادہ تر ڈالرز گرے مارکیٹ سے خریدتے ہیں کیونکہ افغان تاجر پاکستانی یا افغان کرنسی میں وصولی نہیں کرتا ، بعض افغان تاجروں نے ان امپورٹرز کو ڈالرز کے علاوہ امارتی درہم میں ادائیگی کا آپشن بھی دے دیا ہے تاہم زیادہ تر ڈالرز میں ہی وصولی کرتے ہیں، وہیں امپورٹرز کا کہنا ہے کہ افغانستان کیلئے ایل سی نہیں کھل سکتی جس کی وجہ سے ہمیں گرے مارکیٹ سے ڈالر خرید کرادائیگی کرنا ہماری مجبوری ہے جس کی وجہ سے ہمیں ڈالر کے ریٹ کے فرق میں نقصان بھی پہنچتا ہے ، یہی معاملہ ایران میں بھی ہے ، حکومت کو اس سلسلے میں بارہا گزارشات کی ہیں لیکن اب تک اس پر حکومت نے امریکا سے کوئی بات نہیں کی ہے ، حکومت کو چاہیئے کہ وہ امریکا سے بات کرکے افغانستان کے لیئے ایل سی کھلوائے تاکہ ہمیں گرے مارکیٹ سے مہنگے ڈالر خریدنا نہ پڑیں اور بینکوں کے ذریعے ڈالرز کی منتقلی شروع ہوسکے

امت کو ذرائع نے بتایا کہ پاکستان منی ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن نے حکومت اور وزیر خزانہ کو اس ضمن میں خط بھی لکھا ہےکہ وہ غیر قانونی کرنسی کے کاروبار میں ملوث افراد یا ایسی منی ایکس چینج کمپنیوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں کے ساتھ ساتھ افغانستان جانے والے ڈالرز کا راستہ بھی روکے جس سے یومیہ 3 کروڑ ڈالر کی طلب میں کمی آئے گی

اس حوالے سے امت نے جب منی ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان سے بات کی تو انہوں نے کہا ہم غیر قانونی کرنسی کا کاروبار کرنے والے کسی بھی فرد یا ایکس چینج کمپنی کے حق میں نہیں ہیں اور نہ ہی ایف آئی اے کے خلاف ہیں کہ وہ ان کمپنیوں کے خلاف ایکشن نہ لے ، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے پاکستان اور اس کی سالمیت ہے ، انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ اور حکومت پاکستان کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں کو بھی خط لکھا ہے اور ڈالرز کی بیرون ملک منتقلی روکنے کے حوالے سے اقدامات کی سفارش کی ہے ، انہوں نے کہا کہ یومیہ افغانستان و ایران جانے والے 3 کروڑ ڈالر روک لیئے جائیں تو بھی ڈالر کی طلب کم کی جاسکتی ہے ، انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اب صرف پاکستان سے جانے والا ڈالر استعمال ہورہا ہے جس کی روک تھام ضروری ہے