میگزین رپورٹ:
احادیث مبارکی میں بڑی صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ جنات کھاتے پیتے ہیں۔ احادیث کی صحیح ترین کتاب بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ وہ نبی کریمؐ کے ساتھ ان کے وضو کے برتن لے کر چل رہے تھے کہ نبی کریمؐ نے دریافت فرمایا کہ پیچھے کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ابو ہریرہؓ۔ آپؐ نے فرمایا کہ میرے لیے پتھر لائو۔ تاکہ میں ان سے پاکی حاصل کر سکوں اور ہڈیاں اور لید نہ لانا۔ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں آپؐ کے لیے پتھر لے کر آیا اور آپؐ کے ایک جانب رکھ دیئے۔ پس جب آپؐ فارغ ہو کر آگے بڑھنے لگے تو میں نے ساتھ چلتے ہوئے آپؐ سے دریافت کیا کہ آپؐ نے کس بنا پر گوبر (لید) یا ہڈیاں لانے سے منع فرمایا تھا؟ آپؐ نے جواباً فرمایا کہ ’’یہ جنات کا کھانا ہے۔الخ‘‘۔
اسی طرح مسلم شریف میں مروی ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا۔ ’’جب تم کھانا کھائو یا پانی پیو تو اپنے سیدھے ہاتھ سے کھائو اور پیو۔ کیونکہ شیطان تمہارے الٹے ہاتھ کے ساتھ کھاتا اور پیتا ہے‘‘۔
پس اسی طرح احادیث کی کتابوں میں جنات کے کھانے پینے کے بارے میں صراحت کے ساتھ کئی احادیث مذکور ہیں۔
جنات کے کھانے پینے کے بارے میں تین رائے پائی جاتی ہیں۔
اول یہ کہ جنات کھاتے پیتے نہیں اور یہ قول مکمل طور سے غلط ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جنات کی بعض اقسام کھاتی پیتی ہیں۔ جبکہ بعض نہیں۔ اس قول کے بارے میں اس روایت کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جس میں عبدالبر، وہب بن منبہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنات کی دو اقسام ہیں۔ جن میں سے ایک تو وہ ہیں جو فقط ہوا پر مشتمل ہیں۔ یہ نہ تو کھاتے ہیں اور نہ ہی پیتے ہیں اور نہ ہی ان کی نسل چلتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو اس طرح نہیں۔
تیسرا قول یہ ہے کہ جنات انسانوں کی طرح کھاتے پیتے ہیں۔ یہ قول زیادہ صحیح ترین ہے اور اس کے واقع ہونے کا احتمال گزشتہ دو کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ بہرحال اس بارے میں وارد ہونے والی ابن مسعودؓ کی حدیث کو مسلم شریف نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’تمہارے کھانے کے لیے ہر وہ ہڈی ہے جو تمہارے ہاتھ لگے اور اس پر اللہ کا نام پڑھا گیا ہو۔ اس پر موجود گوشت تمہارا کھانا ہے‘۔
عمر بن عنبسہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’بے شک سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اسی کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان المبارک میں جمع کی گئی زکوٰۃ پر محافظ متعین فرمایا۔ پس رات کو ایک آنے والا آیا اور چپکے سے اس مال سے چرانے لگا۔ جب میں نے اسے دیکھا تو پکڑ لیا اور اسے کہا کہ اللہ کی قسم میں تجھے اس جرم کی پاداش میں رسول اللہؐ کے سامنے حاضر کروں گا۔ اس نے جواباً میری منتیں کرتے ہوئے کہا کہ میں محتاج ہوں اور میرا گھرانا کافی بڑا ہے۔ جبکہ اس کی شدید ضرورت تھی۔ جس کی وجہ سے میں نے یہ قدم اٹھایا۔ پس میں نے اس پر ترس کھا کر اسے رہا کر دیا۔ صبح اللہ کے رسولؐ نے مجھ سے دریافت کیا کہ اے ابو ہریرہ، تمہارے رات کے قیدی کا کیا قصہ ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسولؐ اس نے مجھ سے معذرت کی اور گڑگڑایا۔ پس میں نے اس پر رحم کھا کر اسے چھوڑ دیا۔ آپؐ نے فرمایا، بہرحال وہ جھوٹا تھا اور وہ دوبارہ لوٹے گا۔ آپؐ کی اس بات پر مجھے یقین ہو گیا کہ وہ دوبارہ لوٹ کر ضرور آئے گا۔ پس دوسری رات میں پھر اس کے لیے گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ دوسری رات وہ پھر آیا اور اسی طرح چوری کرنے لگا۔ میں نے اسے ایک بار پھر پکڑ لیا تو وہ دوبارہ ماضی کی طرح مجھ سے معافیاں مانگنے اور گڑگڑانے لگا۔ میں اس کی ان باتوں سے ایک بار پھر متاثر ہوا اور اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ صبح ایک بار پھر مجھ سے رسول اللہؐ نے دریافت کیا کہ تمہارے رات کے قیدی کا کیا ہوا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا کہ اس نے مجھے اپنی حاجت اور عیال کا واسطہ دیا۔ جس پر میں نے اسے ایک بار پھر چھوڑ دیا۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ بہرحال وہ جھوٹا ہے اور وہ دوبارہ آئے گا۔ آپؐ کے اس قول پر مجھے پھر یقین ہو گیا کہ وہ دوبارہ یقینا لوٹ کر آئے گا۔ تیسری رات وہ پھر آیا اور کھانے سے چرانے لگا۔ میں نے اسے ایک بار پھر پکڑ لیا اور کہا کہ یہ آخری بار ہے۔ اس مرتبہ تو میں تجھے اللہ کے رسولؐ کے سامنے ضرور حاضر کروں گا۔ میرے پختہ ارادے کو دیکھ کر اس نے کہا، اگر تم مجھے چھوڑ دو تو میں تمہیں ایسے کلمات سکھائوں گا۔ جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں بہت فائدہ دیں گے۔ میں نے کہا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ تو اس نے جواباً کہا کہ جب اپنے بستر کی طرف جائو تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو۔ اس کی وجہ سے ساری رات اللہ کی جانب سے تمہاری حفاظت کی جائے گی اور شیطان تمہارے قریب بھی نہ پھٹکے گا۔ میں نے اس کی اس بات پر اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ صبح اللہ کے رسولؐ نے مجھ سے دوبارہ دریافت کیا کہ تمہارے رات کے قیدی کا کیا ہوا؟ میں نے جواب دیا کہ اس کا کہنا تھا کہ وہ مجھے ایسے کلمات سکھائے گا جس کی وجہ سے اللہ مجھے بے حد فائدہ دے گا۔ پس میں نے اس وجہ سے اسے جانے دیا۔ اللہ کے رسولؐ نے دریافت کیا کہ اس نے تمہیں کیا کلمات سکھائے؟ میں نے اللہ کے رسولؐ کو وہ تمام بات اور آیت الکرسی بتا دی۔ اللہ کے رسولؐ نے یہ بات سن کر فرمایا کہ اگرچہ اس نے یہ بات سچ کہی۔ مگر وہ بہت بڑا جھوٹا ہے۔ پھر مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’اے ابو ہریرہ، کیا تمہیں معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا کس سے واسطہ پڑتا رہا ہے۔‘‘ میں نے کہا نہیں یارسول اللہؐ۔ اللہ کے رسولؐ نے جواب دیا۔ ’’وہ شیطان تھا‘‘۔
اسی طرح اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے کہ سانپ جنات کی مسخ کردہ شکلیں ہیں۔ جیسا کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو مسخ کر کے بندر اور خنزیر کی شکلوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ اسی طرح حدیث شریف میں آتا ہے کہ کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔ اس بارے میں ابن تیمیہ کا قول ہے کہ کالا کتا، کتوں کا شیطان ہوتا ہے اور جنات اکثر اوقات اس کی شکل و صورت اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح کالی بلی کی صورت میں بھی بعض اوقات جنات نمودار ہوتے ہیں۔ درحقیقت کالا پن شیطانیت کا نشان ہے اور اسی رنگ میں شیطان کی طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اقسام کے جانوروں کی شکل اختیار کرتے وقت شیطان کالا رنگ اختیار کرتا ہے۔ جنات کے انسانی شکل میں آنے کے بارے میں جنگ بدر کا وہ قصہ کافی مشہور ہے۔ جب شیطان اس دن مشرکین مکہ کے پاس بنی مدلج کے سربراہ سراقہ بن مالک کی شکل اختیار کر کے اپنے لشکر کے ہمراہ آیا تھا اور مشرکین کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ آج کے دن تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ کیونکہ میں تمہارا ساتھ دے رہا ہوں۔ جب دونوں لشکر صفوں میں کھڑے ہو گئے تو اللہ کے رسولؐ نے زمین سے مٹی کی مٹھی بھر کر کفار کے لشکر کی جانب پھینکی۔ پس اللہ کے حکم سے وہ سب الٹے پائوں بھاگے۔ اس کے بعد جب جبریل علیہ السلام اللہ کے حکم سے کفار کے لشکر میں موجود ابلیس کی طرف لپکے تو ابلیس جو اب تک کفار کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا، ان سے ہاتھ چھڑا کر بھاگا۔ اس کو اس طرح سرپٹ بھاگتا دیکھ کر ایک کافر نے کہا کہ اے سراقہ کیا تو ہمیں اپنا پڑوسی خیال نہیں کرتا تھا؟ اس کے جواب میں شیطان نے کہا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں، تم وہ نہیں دیکھ سکتے۔ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ بہت سخت عذاب دینے والا ہے۔ ابن عباسؓ کا قول ہے کہ یہ اس وقت ہوا جب اس نے فرشتوں کے لشکر کو جبرئیلؑ کی سربراہی میں نازل ہوتے دیکھا تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا قول ہے کہ جنات انسان، جانوروں وغیرہ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ پس وہ سانپوں، بچھوئوں وغیرہ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ گائے، بکریوں، بھیڑوں، گھوڑوں، خچروں، گدھوں اور پرندوں حتیٰ کہ بنی آدم کی شکل بھی اختیار کرتے ہیں۔