احمد خلیل جازم:
تاجر برادری نے رات آٹھ بجے تمام کاروبار، دکانیں اور مارکیٹیں بند کرنے کا حکومتی فیصلہ مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ کاروبار جلد بندکرنے کے فیصلے کو فوری واپس لیا جائے۔ آل پاکستان انجمن تاجران نے کا کہنا ہے کہ کاروباری طبقہ پہلے ہی پریشانی کا شکار ہے۔ حکومت کے ایسے اقدامات سے جہاں انہیں نقصان ہوگا۔ وہیں ملکی معیشت کو بھی بے انتہا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں تاجر واحد ایسا طبقہ ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور سب سے مہنگی بجلی بھی اسی طبقے کو خریدنا پڑتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ مفت بجلی استعمال کرنے والوں کی بجلی پر ایکشن لے نہ کہ جو طبقہ مہنگی بجلی خرید رہا ہے۔ اسے بار بار ایسے امتحان میں ڈالا جائے کہ کروڑوں تاجر جو ملکی معیشت میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں ، وہ تباہ ہو جائیں۔
رات آٹھ بجے تمام کاروبار، دکانیں اور مارکیٹیں بند کرنے کے حکومتی فیصلے کے حوالے سے آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’شادی ہال تو پہلے ہی دس بجے بند ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک دکانوں اور مارکیٹوں کی بات ہے تو ہمارے چھ بجے سے رات دس بجے تک پیک آورز ہوتے ہیں۔ اس وقت کاروبارکیسے بند کیا جا سکتا ہے۔ ہم کاروبار بند نہیں کریں گے۔ حکومت کہتی ہے کہ رات آٹھ بجے سے کاروبار بند کرنے سے ان کی اتنی بچت ہوگی۔ کوئی 56 ارب روپے کا بتایا ہے اور یہ بات خواجہ آصف صاحب نے کہی ہے۔ اول توخواجہ آصف کا کوئی کام نہیں تھا کہ وہ یہ بات کرتے۔ یہ بات وزیر توانائی کرتے تو سمجھ بھی آتی ہے۔ لوگوں کو جمع تفریق کرکے بتایا جاتا کہ یہ پرابلم ہیں۔ تاجروں اور عوام کے ذہن میں پھر تو کوئی بات بھی بیٹھتی کہ واقعی یہ مسائل ہیں اور لوگ اسے تسلیم بھی کرتے۔
دوسری بات یہ کہ پورے پاکستان میں کم و بیش ایک کروڑ سے زائد تاجر ہیں اور سب سے مہنگی بجلی یہی تاجر خرید رہا ہے۔ ہمیں تقریباً85 روپے فی یونٹ بجلی ملتی ہے۔ مجھے یہ بتائیں کہ جب ہم پیسے نہیں دیں گے، تو آئل آئے گا کہاں سے۔ بجلی کیسے بنے گی۔ پاکستان کا کوئی اور طبقہ اتنے پیسوں کی بجلی نہیں خریدرہا۔ جتنی مہنگی تاجر کمرشل بجلی خرید رہے ہیں۔ حکومت کو اسے سپورٹ کرنی چاہیے نہ کہ ان پر تلوار لٹکا دی جائے۔ جہاں مفت بجلی چل رہی ہے اسے کیوں بند نہیں کرتے۔ سرکاری اداروں میں بجلی مفت چل رہی ہے یا وہ بہت بڑے نادہندگان ہیں۔ ان سے ریکوری کیوں نہیں کرتے۔ سرکاری اداروں میں بجلی کے لیے سولر سسٹم لگائیں۔ پلاننگ کریں۔ کچھ ایسے اقدام کریں کہ وہاں سے اخراجات بچ جائیں۔ اور بجلی ان کو دیں جہاں آپ کی بجلی مہنگی بک رہی ہے۔ آپ خریدار سے بجلی چھین رہے ہیں اور مفت خوروں کو دے رہے ہیں۔ کسی وقت آپ کراچی سے نکل کر جی ٹی روڈ پر آئیں۔ اس پر جتنے پٹرول پمپ ہیں۔ جتنے ہوٹلز ہیں۔ انہوں نے دو دو ہزار وولٹ کے بلب لگا رکھے ہوں گے۔ جو ساری رات چلتے ہیں۔ کیونکہ وہ تو بند ہونے سے رہے۔ اگر حکومت نے بجلی کی بچت کرنی ہے تو مثبت اقدامات اٹھائے۔ ہمارے ساتھ بیٹھے۔ ہمیں بتائے۔ ہم بجلی آدھی جلا لیں گے۔ جس دکان میں دس لائیٹیں ہوں گی ہم پانچ کردیں گے۔ ہم پیسے بھی دے رہے ہیں اور ہمیں نقصان بھی پہنچایا جارہا ہے۔
توانائی بچاتے بچاتے وہ معیشت جس کا بھٹہ پہلے ہی بیٹھا ہوا ہے، اسے مزید دفن کر رہے ہیں۔ اگر تاجر ڈیفالٹ کر گیا تو پھر کیا ہوگا۔ ہمارا کلچر یہ ہے کہ ہم شام چھ بجے کے بعد پیک آور میں ہی باہر جاتے ہیں۔ جب لائیٹنگ ہوتی ہے۔ لوگ دکانوں کا رخ کرتے ہیں۔ دن میں تو کوئی نہیں آ نہیں سکتا۔ سرکاری ملازم ہو یا پرائیویٹ یا پھر کوئی مزدور۔ وہ تو سارا دن کام پر ہوتا ہے۔ شام چار پانچ بجے گھر آئے۔ گھر میں آکر تیار ہوکر بچوں کو مارکیٹ لاتے لاتے اس کو سات بج جاتے ہیں۔ آگے مارکیٹیں بند ہونا شروع ہوجائیں گی۔ یہ تو کوئی حل نہیں۔ حکومت کو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی چاہیے تاکہ ہم انہیں بہتر راستہ بتائیں۔ وہ آٹھ بجے بجلی کی بندش کا کہتے ہیں تو ہم انہیں آپشن دیتے کہ ٹھیک ہے۔ آپ کمرشل سیکٹر میں رات آٹھ بجے ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کرلیں۔ دکانوں پر الٹرنیٹ ہوتا ہے۔ تاجر کام چلا لیں گے۔ کورونا کی وبا کے دنوں میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ گورنمنٹ وہی اچھی جو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر بات کرے۔ پچھلے دنوں انہوں نے جو بجلی کے بلوں میں تاجروں پر تین ہزار روپے ٹیکس لگایا تھا۔ اس پر بعد میں وزیر اعظم کو ہم سے معذرت کرنی پڑی۔ مفتاح اسماعیل نے اپنی غلطی تسلیم کی تھی۔ ہم نے پہلے دن کہا تھا کہ سیل ٹیکس ریٹیلر پر نہیں لگتا۔ وہاں ہم سے معذرت کرکے عہد کیا کہ آئندہ تاجر برادری کی مشاورت سے کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ ابھی خواجہ آصف نے کہا کہ جمعہ یعنی آج ہم بیٹھ کر اس کا حل نکالتے ہیں‘‘۔
انجمن تاجران پنجاب کے مرکزی صدر شاہد غفور پراچہ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس اعلان کے حق میں نہیں۔ ایک یونیفارم پالیسی ہونی چاہیے، جو چاروں صوبوں کے لیے ہو۔ اگر ایسے فیصلے کرنے ہیں تو جو لوگ ان سے متاثر ہوں گے۔ کم از کم ان سے مشاورت تو کی جائے۔ تمام صوبائی صدور کو بلایا جائے۔ تاکہ چیزیں طے ہوں۔ اس پر عمل درآمد ہو سکے اور کوئی حل نکلے۔ ہم سے کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ جب کوئی رابطہ کرے گا تو ہم اس پر انہیں جواب دیں گے۔ ابھی صرف اعلان کیا گیا ہے، جب اس پر عمل کا وقت آئے گا تو پھر ہم آپس میں مشاورت کرکے اس کے خلاف لائحہ عمل طے کریں گے۔ اگر تو ہم سے مذاکرات کرکے اس کا حل نکالتے ہیں تو پھر یہ کام اعلان کرنے سے قبل ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ نہ کہ تاجروں پر پابندیاں لگائی جائیں۔ ہم تو پھر بھی تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن ہم سے بات تو کریں۔ آپ مجھے بتائیں کہ اس بندش کا ہمیں کوئی فائدہ ہے یا عوام کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ اس کا مقصد کیا ہے۔ صرف معیشت کو مزید تباہی کی جانب دھکیلنے کے اور کوئی فائدہ نہیں‘‘۔