محمد نواز طاہر:
پنجاب اسمبلی نہ توڑے جانے کی یقین دہانی پر لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الٰہی اور کابینہ کو بحال کر دیا ہے۔ تاہم اس کے بعد ہر طبقہ فکر میں یہ بحث جاری ہے کہ عدالت کے اس فیصلے سے کس کو ریلیف ملا ہے۔ یہ بحث قانونی حلقوں میں بھی جاری ہے۔ جس میں یہ کہا جارہا ہے کہ عدالتی فیصلہ سے عمران خان کے علاوہ باقی سب کو ریلیف ملا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ فائدہ پی ٹی آئی کے اتحادی وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو اور دوسرا پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کو پہنچا ہے۔ جو چاہتی ہے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہو۔ جبکہ خود چودھری پروی الٰہی کی خواہش ہے کہ اسمبلی برقرار رہے اور اب انہیں مزید کچھ روز کے لیے اپنی وزارت اعلیٰ برقرار رکھنے کا موقع اور جواز مل گیا ہے۔
عدالت عالیہ لاہور کے فیصلے کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے سینئر قانون دان سید منظور حیدر گیلانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’بظاہر اس کا فائدہ وفاقی حکومت اور پرویز الٰہی کو پہنچا ہے۔ عمران کو بظاہر تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ لیکن اسمبلی کی تحلیل میں تاخیر سے درپردہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی فائدہ پہنچا ہے تو الگ بات ہے۔ کیونکہ وہ تو اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کر چکے ہیں۔ جس پر ردعمل میں پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ اسمبلی مارچ تک چلنی چاہیے۔ اور پھر عمران خان کے 23 دسمبر کو اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کی بھی چوہدری پرویز الٰہی نے تائید کر دی تھی۔ اب عدالت کے فیصلے کی روشنی میں چودھری پرویز الٰہی کو یہ فائدہ پہنچا ہے کہ ایک تو وہ اپنے سابق موقف کے حق میں عمران خان کے سامنے جواز حاصل کر چکے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اب انہیں اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے مہلت مل گئی‘‘۔ ایک سوال پر سید منظور حیدر گیلانی نے بتایا کہ ’’چوہدری پرویز الٰہی کو مہلت انہیں گورنر کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا حکمنامہ جاری کرتے ہوئے حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ان کے پاس مطلوبہ ارکان کی تعداد دستیاب نہیں تھی۔ اسی وجہ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا گیا تھا اور اجلاس نہ بلانے اور اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرنے پر گورنر نے درست طور پر آئین کے تحت اقدام اٹھایا تھا۔ پرویز الٰہی اب ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں اراکین کا انتظام کریں گے۔ انہیں بہتر طور پر مدت مل گئی ہے۔ دوسرا اور اصل فائدہ وفاق کو ہوا ہے۔ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ اب 11 جنوری تک عدالت نے کیس ملتوی کیا ہے۔ 11 جنوری کے بعد یا اس وقت کیا صورتحال ہونی ہے۔ تب آئین و قانون کے تحت دیکھنا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ عدالت کے فیصلے سے گورنر کا حکمنامہ جس کے تحت وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ ختم کی گئی تھی، وہ ختم ہو گیا، تو یہ سمجھنا غلط ہو گا۔ عدالت نے اپنے عبوری فیصلے میں گورنر کے اس اقدام کو عارضی طور پر غیر موثر رکھا ہے۔ اسے نہ تو معطل کیا ہے اور نہ ہی ختم کیا ہے۔ گورنر کا وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم نامہ بھی برقرار ہے۔ جو کہ آئین کے تحت درست ہے۔ اور گورنر کسی وقت بھی وزیر اعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہہ سکتا ہے۔ دوسرا وزیر اعلیٰ اور کابینہ ختم کرنے کا آئینی اقدام بھی برقرار ہے۔ عدالت میں بھی یہ نکتہ زیربحث رہا اور مزید اسی پر بحث ہو گی کہ وزیر اعلیٰ نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ کیوں نہیں لیا۔ جبکہ یہ آئین کے تحت لازم تھا‘‘۔ ایک اور سوال پر سید منظور گیلانی کا کہنا تھا کہ ’’اگر فرض کریں کہ پرویز الٰہی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل بھی کر لیتے ہیں جو کہ انتہائی مشکل دکھائی دے رہا ہے اور ان کے اپنے لوگ یہ کمزوری تسلیم بھی کر رہے ہیں اور اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اسمبلیاں توڑ دیتے ہیں، تو اس صورت میں بھی عمران خان کی خواہش پوری نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد ضمنی الیکشن نہیں بلکہ اسمبلی کی پوری مدت کے لیے الیکشن ہونے ہیں۔ جو الیکشن کمیشن نے کروانے ہیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن اگلی پوری مدت کے لیے الیکشن نہیں کرا سکتا۔ کیونکہ ابھی جنوری سے مردم شماری کا مرحلہ شروع ہونا ہے۔ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں اور اسمبلی کی نشستوں کا تعین ہونا ہے۔ یہ سب کچھ ہونے سے پہلے الیکشن کمیشن کے لیے انتخابات کروانا ممکن نہیں ہے۔ یہ سارا کام کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو وقت درکار ہے۔ عمران خان کے اپنے ذہن میں معلوم نہیں کیا بات ہے۔ وہ کس طرح سمجھتے ہیں کہ مردم شماری، حلقہ بندیوں اور اسمبلی کی نشستوں کے تعین جیسے اہم امور کے بغیر ہی اسمبلی تحلیل کر کے نئے الیکشن کروائے جاسکتے ہیں۔ شاید وہ پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہی الیکشن کے خواہاں ہیں جو کہ ناممکن بات ہے۔ اس وقت تک تو عمران خان زیادہ سے زیادہ غیر یقینی کی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ایک ولن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ ان کے اپنے لوگ ان کے رویے سے تنگ آنا شروع ہو گئے ہیں۔ رہا یہ سوال کہ کس کو ریلیف یا فائدہ پہنچا ہے تو، اس کا سب سے زیادہ فائدہ وفاق اور چودھری پرویز الٰہی کو پہنچا ہے‘‘۔
سینئر قانون دان عابد ساقی کا کہنا ہے کہ ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی آئینی و قانونی تشریح نہیں۔ عدالت عالیہ کے لارجر بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے۔ یہ عبوری فیصلہ ہے۔ کیس ابھی زیرالتوا ہے۔ جس میں آئینی و قانونی معاملات پر بات ہونی ہے۔ اب تک کے فیصلے میں صرف وزیر اعلیٰ اور کابینہ عبوری طور پر بحال کی گئی ہے۔ اب پرویز الٰہی نے گورنر کے احکامات کے مطابق اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہے۔ جو آئینی تقاضے کے برعکس کیا نہیں گیا تھا اور گورنر نے جواب میں آئینی اقدام اٹھایا۔ اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا اور عدالت نے انہیں مشروط طور پر 11 جنوری تک بحال کر دیا ہے۔ اب وہ اپنے اس اعلان کے مطابق اسمبلی تحلیل نہیں کر سکیں گے۔ جو انہوں نے عمران خان کے 23 دسمبر کو اسمبلی توڑنے کے فیصلے کی تائید میں کیا تھا۔ اس طرح اصل فائدہ تو اس فیصلے سے چوہدری پرویز الٰہی کو پہنچا ہے۔ عمران خان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ عمران خان معلوم نہیں کیا چاہتے ہیں۔ یہ ساری آئینی و قانونی جنگ سے زیادہ طاقت کی سیاست ہو رہی ہے اور اس میں فی الحال فائدہ پرویز الٰہی کو پہنچا ہے۔ جن کی دلی خواہش اسمبلی تحلیل نہ کرنا ہے‘‘۔
دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر محمد سبطین خان نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ تبدیل کر دی ہے۔ انہوں نے جمعہ کو اسمبلی کا جو اجلاس 26 دسمبر پیر تک ملتوی کیا تھا۔ اب انتظامی اختیارات کے تحت اس کی تاریخ تبدیل کر کے 11 جنوری کر دی ہے۔ اسی روز عدالت نے اپنے سامنے زیر سماعت مقدمہ کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے۔ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اسمبلی کی تحلیل رکوانے کے لیے لاہور کا دورہ مکمل کر کے کراچی واپس چلے گئے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اسی دوران ضروری ہوا تو وہ جنوری میں پھر دورہ کریں گے۔