سوئٹ سپاری
 سپلائرز خود دکانوں او گوداموں میں پہنچانے لگے۔فائل فوٹو

سوئٹ سپاری،کمپنیوں نے شہریوں کو زہر کھلانا شروع کر دیا

ایل سی نہ کھلنے کے سبب چھالیہ کے درجنوں کنٹینرز پورٹ پر کلیئرنس کے انتظار میں ہیں- مارکیٹ میں اسمگل شدہ مضر صحت چھالیہ باآسانی 350 روپے کلو دستیاب-

 

عمران خان:
سوئٹ سپاری کمپنیاں شہریوں کو زہر کھلانے لگیں۔ ایل سی نہ کھلنے کے سبب درجنوں کنٹینرز پورٹ پر کلیئرنس کے انتظار میں ہیں۔ اس کے باجود مقامی مارکیٹ میں اسمگل شدہ مضر صحت چھالیہ باآسانی 350 روپے کلو میں دستیاب ہے۔ جو سپلائرز کے ملازمین خود دکانوں اور فیکٹریوں کے گوداموں میں پہنچا رہے ہیں۔ امت کو موصول دستاویزات کے مطابق لیبارٹریز ٹیسٹ کے بعد کسٹمز رپورٹ میں سوئٹ سپاری میں فنگس لگی سڑی گلی مضر صحت چھالیہ استعمال کی تصدیق کی گئی ہے۔ جس میں شہر کے 18 سوئٹ سپاری ڈیلرز اور کمپنی مالکان کو نامزد کیا گیا ہے۔

سوئٹ سپاری کمپنیوں کے مالکان ماہانہ کروڑوں روپے کا ناجائز منافع کمانے لگے

کچھ عرصہ قبل چھالیہ کی امپورٹ مکمل بند ہونے پر قیمت فی کلو 2000 روپے ہونے پر سوئٹ سپاری کمپنیوں کے مالکان نے چھالیہ کی پڑیوں کی قیمت ایک روپے سے بڑھا کر 5 روپے کردی تھی۔ جبکہ اب چھالیہ انتہائی سستی ہونے کے باجود 5 روپے کی چھوٹی پڑیا فروخت کرکے ماہانہ کروڑوں روپے کا ناجائز منافع بٹورا جا رہا ہے۔ زیادہ تر سوئٹ سپاری کمپنیاں ٹیکس ادا ہی نہیں کرتیں۔ جس کے نتیجے میں سالانہ اربوں روپے کے محصولات چوری کرکے رئیل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں کی سرمایہ کاری میں کھپائے جا رہے ہیں۔

تمام تر صورتحال کا علم ہونے کے باجود محکمہ کسٹمز پریونٹو کلکٹریٹ کراچی اور اے ایس او کے افسران خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق حالیہ مہینوں میں چھالیہ کی اسمگلنگ انتہا کو چھونے لگی ہے۔ ملک میں صرف ایک فیصد چھالیہ قانونی طریقے سے درآمد ہو کر آ رہی ہے۔ جبکہ 99 فیصد چھالیہ اسمگل ہوکر ملک بھر میں سپلائی کی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک مقامی مارکیٹ میں 1500 سے 1800 روپے کلو فروخت ہونے والی چھالیہ اب 500 روپے فی کلو باآسانی دستیا ب ہے۔ جو سپلائرز از خود دکانوں تک پہنچانے کو بھی تیار ہیں۔

سوئٹ سپاری ( چھالیہ ) کی سمگلنگ سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان

ایک اندازے کے مطابق قومی خزانے کو چھالیہ کی درآمد کی مد میں سالانہ جو 200 ارب روپے سے زائد کے محصولات مل سکتے ہیں۔ وہ اسمگلر، ہول سیل تاجر، سوئٹ سپاری فیکٹریوں کے مالکان اور کسٹم و پولیس کے کرپٹ افسران کی جیبوں میں جا رہے ہیں۔ چھالیہ کی مقامی مارکیٹ میں موجودہ کھپت ماہانہ 500 کنٹینرز سے زائد ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر بندرگاہو ں سے ماہانہ صرف 10 سے 12 چھالیہ کے کنٹینرز کی قانونی در آمد ہو رہی ہے۔ وہ بھی ایل سی نہ کھلنے کے سبب رکی ہوئی ہے۔ تاہم مارکیٹ میں چھالیہ کی کمی نہیں اور مال بلوچستان کے راستے یوسف گوٹھ ٹرمینل، سہراب گوٹھ، آر سی ڈی اور نادرن بائی پاس کے دیگر راستوں سے مسلسل پہنچ رہا ہے۔

 

ذرائع کے بقول ملک میں ڈالرز کی کمیابی کی وجہ سے اجناس سمیت کئی ضروری اشیا کے کنٹینرز پورٹ پر رکے ہوئے ہیں۔ تاہم چھالیہ کے کنٹینرز کو رکنے پر سوئٹ سپاری کمپنیوں نے اسمگلنگ کی چھالیہ استعمال کرنے کو جواز بنا لیا ہے۔ حالانکہ پہلے بھی صرف 5 فیصد درآمد شدہ چھالیہ کے ساتھ 95 فیصد اسمگل شدہ چھالیہ استعمال کی جا رہی تھی۔ کیونکہ اسمگل شدہ چھالیہ سستی اور بغیر ٹیکس ادائیگی کے آسانی سے مل جاتی ہے۔ جبکہ درآمد کرنے کیلئے چھالیہ منگوانے سے لیکر کلیئر کرانے تک کے پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ معروف سوئٹ سپاری فیکٹری مالکان سے کسٹمز انٹیلی جنس اور کسٹمز پریونٹو کے نام پر کروڑوں روپے کی وصولی کی جا رہی ہے۔

 

نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے سے روزانہ سینکڑوں کورولا اور ہائی جیٹ کاروں میں فی گاڑی 1000 سے 1500 کلو چھالیہ کی منتقلی جاری ہے۔ فی گاڑی پر پریونٹو کراچی کی اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کے بیٹر کو رشوت ادا کی جاتی ہے۔ کسٹمز اعداد و شمار کے مطابق ملک میں چھالیہ کی ماہانہ قانونی درآمد صرف 8 سے 10 کنٹینرز ہے۔ جبکہ چھالیہ کی ماہانہ کھپت 500 کنٹینرز سے بھی زائد ہے۔ جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ چھالیہ کا کاروبارکرنے والے عرصے سے اسمگلڈ چھالیہ سے اپنی فیکٹریاں چلارہے ہیں۔ ذرائع کے بقول اسمگل شدہ چھالیہ 100 فیصد فنگس لگی مضر صحت ہوتی ہے۔ یہ چھالیہ شہریوں کو منہ کے کینسر سمیت کئی بیماریوں میں بھی مبتلا کر رہی ہے۔

 

محکمہ کسٹمز کے افسران کے نام پر کروڑوں روپے ماہانہ رشوت

واضح رہے کہ 4 برس قبل چھالیہ کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی اور بعدازاں صرف معیاری اور درجہ اول کی چھالیہ کی درآمد کی اجازت دی گئی۔ جسے لیبارٹری ٹیسٹ، پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے سرٹیفکیٹ سے مشروط کر کے 74 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی بھی عائد کردی گئی۔ اس مدت کے دوران چھالیہ مارکیٹ میں نایاب ہونے سے بہت مہنگی ہوگئی تھی۔ اسی کو جواز بناکر سوئٹ سپاری مالکان نے سپاری کی قیمتیں بڑھا کر چھالیہ کی ایک پڑیا 5 روپے کردی تھی۔ تاہم اب جبکہ مارکیٹ میں اسمگلنگ کی چھالیہ بے تحاشا اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے۔ اس وقت بھی سوئٹ سپاری مالکان اسی مہنگے داموں سپاری فروخت کرکے اربوں روپے بٹور رہے ہیں۔ روزانہ کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری کی جا رہی ہے۔ جبکہ محکمہ کسٹمز ،ایف بی آر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سنی، بمبئی، تارا، ٹیسٹی، رتنا، سیون اپ اور دیگر سپاری فیکٹریوں کے مالکان سے محکمہ کسٹمز کے افسران کے نام پر کروڑوں روپے ماہانہ رشوت لی جا رہی ہے۔ تاکہ ان کی فیکٹریوں میں موجود چھالیہ کو ضبط کرنے کیلئے فیکٹریوں پر چھاپے نہ مارے جائیں۔ ذرائع نے مزید بتایاکہ فیکٹری مالکان کی جانب سے کروڑوں روپے کی رشوت دینے کا اصل مقصد اسمگل شدہ چھالیہ سے فیکٹری چلانے کی اجازت ملنا ہے اور یہ تمام کام کسٹمز افسران کی سربراہی میں ہو رہا ہے۔