اقبال اعوان/ محمدقاسم
کراچی میں گیس کا بحران شدت اختیار کر گیا۔ دن بھر میں صرف آٹھ گھنٹے گیس دستیاب ہوتی ہے اور اس دوران بھی لوڈ شیڈنگ جاری رہتی ہے۔ جبکہ متباد اشیا ایل پی جی، چولہے لگے سلنڈر، لکڑیاں، کوئلہ، لکڑی کا برادہ، گوبر کے اپلے، گیس کمپریسر سیکشن پمپ، بھی مہنگے ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب پشاور میں گیس مکمل طور پر غائب ہے۔ جس پر ایل پی جی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کر دیا گیا ہے۔ دکانوں پر لمبی لائنیں لگی رہتی ہیں۔ جہاں جھگڑے معمول بن گئے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں پہلی بار گیس کا بحران شدید ہوگیا ہے۔ وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے شہریوں کو گھریلو سطح پر ناشتے اور صبح شام کے کھانے کیلئے یومیہ 8 گھنٹے گیس فراہم کی جائے گی۔ سوئی سدرن گیس کمپنی نے باقاعدہ لوڈ شیڈنگ کا شیڈول جاری کیا تھا کہ 24 گھنٹے میں کل 8 گھنٹے گیس ملے گی۔ صبح ناشتے کیلئے 6 بجے سے 9 بجے تک۔ دوپہر کے کھانے کیلئے 12 بجے سے 2 بجے تک اور شام کو 6 بجے سے رات 9 بجے تک۔ تاہم ان آٹھ گنٹوں کے دوران بھی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
بعض علاقوں میں کئی روز سے گیس کی بندش ہے۔ ڈیفنس، کلفٹن کے علاقوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ جبکہ کورنگی، شاہ فیصل کالونی، لانڈھی، ملیر، لیاقت آباد، ناظم آباد، سرجانی، بلدیہ، ماڑی پور کالونی اور اطراف کی آبادیوں، لیاری، اولڈ سٹی ایریا، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور دیگر علاقوں میں بھی صورتحال خراب ہے۔ شہری ناشتے کیلئے ہوٹلوں پر پراٹھے اور چائے کیلئے جہاں خاصی رقم خرچ کرتے ہیں۔ وہیں انہیں لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ دوپہر اور رات کو الگ چپاتی، روٹی اور نان کیلئے لائنوں میں لگتے ہیں۔ جبکہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایل پی جی کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔ ایل پی جی گیس 120 سے 130 روپے کلو مل رہی ہے اور دکانوں پر لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ چولہے لگے سلنڈر بھی مہنگے کر دیئے گئے ہیں۔ چھوٹے سائز کا کلو یا سوا کلو والا چولہے سمیت سلنڈر 35 سو سے 5 ہزار روپے کا آرہا ہے۔ دوپہر میں شہری غیرقانونی طور پر گیس کمپریسر یا سیکشن پمپ کا بھی استعمال کرتے ہیں اور اس کی قیمت بھی 1500 سے 3 ہزار روپے اور اچھے معیار کا 5 سے 6 ہزار روپے کا مل رہا ہے۔ شہر میں کوئلہ بھی نایاب ہوگیا ہے۔ جو فی کلو 120 سے 130 روپے تک مل رہا ہے۔ لکڑی ہزار سے بارہ سو روپے من، لکڑی کے برادے کی عام درمیانی بوری 300 روپے کی مل رہی ہے۔
مضافاتی اور کچی آبادیوں میں گوبر کے اپلے 150 سے 200 روپے کے ایک سو ملتے ہیں۔ اس طرح مہنگائی کے مارے شہری مزید اخراجات میں پھنس رہے ہیں۔ دوسری جانب متبادل اشیا بالخصوص ایل پی جی سلنڈر کا استعمال اور گیس کے چولہوں سے بے احتیاطی جان لیوا بن رہی ہے۔ ایل پی جی ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن کے سرپرست محمد اسحاق خان کا کہنا ہے کہ شہری گیس نہ آنے کی صورت میں یاد سے چولہا بند کر دیں۔ ورنہ گیس اگر آگئی تو لیکیج سے دھماکہ ہوتا ہے۔ جبکہ ایل پی جی کے بوسیدہ، رنگ آلودہ، خستہ حال سلنڈر استعمال نہ کریں اور احتیاط سے استعمال کریں۔ تاکہ کوئی حادثہ نہ ہو۔
دوسری جانب پشاور میں سوئی گیس مکمل غائب ہے اور ایل پی جی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کر دیاگیا ہے۔ گیس نہ ہونے کے باعث بازاری کھانوں کی قیمت اور مانگ دونوں بڑھ گئی ہیں۔ تندور مالکان نے بھی روٹی کا وزن کم کر کے قیمت بڑھا دی ہے اور انتظامیہ محض کاغذی کارروائیوں اور بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایل پی جی کی دکانوں پر لائنیں لگ جانے کے باعث لڑائی جھگڑے بھی معمول بن گئے ہیں۔
گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ کے خلاف اندرون شہر کے مکینوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے گیس کے بل جمع نہ کرانے کی دھمکی دی ہے ۔ واضح رہے کہ اندرون شہر کے علاقوں میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے روز پہلے سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی تھی اور پریشر بھی انہی دنوں میں کم ہوتا تھا۔ لیکن اب پورا ہفتہ لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے مسائل نے جنم لے لیا ہے۔ جس کے باعث جہاں گھریلو امور بری طرح متاثر ہوکر رہ گئے ہیں۔ وہیں ہوٹلوں اور نانبائیوں کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔
سوئی گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ کے خلاف اندرون شہر ہشت نگری، لاہوری، کریم پورہ، جھنڈا بازار، تحصیل محلہ شاہ معصوم، لاہوری سبز پیر روڈ سمیت مختلف علاقوں کے مکینوں نے سوئی گیس کی عدم فراہمی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے گیس کے بل جمع نہ کرانے کی دھمکی دیدی ہے۔ لاہوری گیٹ کے رہائشی محمد عمران نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’پہلے ہفتے میں کم از کم چار دن سوئی گیس مل جاتی تھی۔ لیکن اب ہفتے کے ساتوں دن گیس غائب ہے۔ سوئی گیس نہ ہونے اور شدید سردی کے باعث گھروں میں بچے بھی بیمار ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ایک طرف سوئی گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ ہے تو دوسری طرف بجلی بھی گھنٹوں غائب رہتی ہے۔ اس صورتحال میں ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ صبح 7 بجے سے رات 10 بجے تک پشاور کے مختلف علاقوں میں ایل پی جی کی دکانوں پر سلنڈر لائن میں رکھے نظر آرہے ہیں۔
کریم پوری کے رہائشی حاجی رفاقت نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اتوار کی صبح سے سوئی گیس غائب ہے۔ انہوں نے مجبوراً 4 کلو کا سلنڈر خریدا ہے۔ جس کی قیمت 2500 روپے وصول کی گئی ہے۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق پچھلے سال چار کلو سلنڈر کی قیمت 1800 روپے تھی۔ جبکہ اس سال قیمت میں 700 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ایل پی جی گیس کی دکانوں پر بڑھتے ہوئے رش اور دھکم پیل سمیت نمبروں کے حصول کیلئے لڑائی جھگڑے بھی معمول بن گئے ہیں۔
ایک دکاندار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ہر شہری کو جلدی ہوتی ہے کہ اسے گیس بھروا کر دی جائے۔ تاہم انہوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے لائن اور نمبر کا سسٹم رکھا ہے۔ تاہم اس کے باوجود لوگ جلدی میں آگے آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے باعث دھکم پیل اور لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ سوئی گیس کا مسئلہ انتہائی سنگین ہونے کے باعث کھانوں کی ڈیمانڈ اور قیمت دونوں میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ تندور مالکان نے بھی روٹی کا وزن مزید کم کر کے قیمت بڑھا دی ہے۔ اندرون شہر ہشت نگری، خیبر بازار اور خاص کر نمک منڈی و پشاور کینٹ میں ہوٹلز اور تندور مالکان نے من مانے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں اور شہریوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر انہیں لوٹا جارہا ہے۔ ایک شہری ارشاد احمد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بڑی مشکل صورتحال ہو گئی ہے۔ ایک تو کام روزگار نہیں اور دوسرا سوئی گیس کی قلت ہے۔ مجبو ر ہوکر ہوٹلوں کا کھانا کھا رہے ہیں۔ لیکن یہاں پر لوٹ مار کا بازار سرعام گرم ہے اور انتظامیہ کا کوئی اہلکار نظر نہیں آتا۔ اسی طرح پختہ چائے فروشوں نے بھی چائے کے ریٹ بڑھا دیئے ہیں اور ساتھ ہی صبح کا ناشتہ بھی انتہائی مہنگا کر دیا ہے۔