نسخوں کی تیاری کے بعد سویڈن میں تقسیم کیے جائیں گے۔ فائل فوٹو
نسخوں کی تیاری کے بعد سویڈن میں تقسیم کیے جائیں گے۔ فائل فوٹو

’’جن حافظ قرآن نوجوان سے مانوس ہو گیا‘‘

میگزین رپورٹ:
اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے۔ ’’اور بہت سے لوگ آدمیوں میں ایسے تھے کہ وہ جنات میں سے بعضے لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے، سو ان آدمیوں نے ان جنات کی بددماغی اور بڑھا دی‘‘۔ سورۃ الجن۔
ابن کثیرؒ نے اس آیت کی تشریح میں فرمایا ہے کہ جب انسان جنات کو زیادہ طاقتور گردانتے ہوئے ان سے پناہ طلب کرتے ہیں تو جنات کی بددماغی بڑھ جاتی ہے۔ چونکہ زمانہ جاہلیت میں عرب کی عادت تھی کہ جب وہ کسی ویران مقام پر قیام کرتے تھے تو جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے جنات کی بددماغی مزید بڑھ گئی تھی۔ کیونکہ جنات جو اس سے قبل انسانوں سے خود خوف کھاتے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ انسان ان سے ڈر رہے ہیں۔ اس کے بعد جنات انسانوں کے سامنے اپنی مان مانی کیا کرتے تھے۔ پس انسان کو کبھی بھی جنات سے خوف نہیں کھانا چاہیے۔ کیونکہ ایسی صورت میں جنات جو انسان خصوصاً مومن سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ بددماغ ہو کر انسان پر اپنا اثر و رسوخ جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنات سے پناہ طلب کرنا صریحاً شرک ہے۔ بلکہ اس کے مقابلے میں اللہ کے رسولؐ نے بعض ایسے کلمات بتائے ہیں جن کی وجہ سے جنات اور شیاطین انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کا ارشاد ہے۔ ’’جو کسی منزل پر ٹھہرا پھر اس نے یہ کلمات ادا کیے ’’اَعوذُ بِکلماتِ اللّہ التامّات مِن شرّ مَا خَلَق‘‘ اسے جنات اور شیاطین اس وقت تک کوئی ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ جب تک وہ اس مقام پر ٹھہرا رہے گا‘‘۔
خریم بن فاتک کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ ان کا اونٹ گم ہو گیا۔ وہ اسے ڈھونڈتے ہوئے دور صحرا میں نکل گئے۔ یہاں تک کہ رات ہو گئی۔ چونکہ وہ ویران مقام پر تھے۔ اس لیے انہوں نے زمانہ جاہلیت کے زیراثر کہا کہ میں اس مقام کی سب سے طاقتور شخصیت جن سے اس کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد اچانک مجھے ایک آواز سنائی دی۔ کوئی اشعار پڑھ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا۔ ’’خبردار! بس اللہ ذو الجلال سے ہی اس کی پناہ طلب کر‘‘۔ پھر اس کے بعد سورۃ انفال کی آیات پڑھی گئیں۔ ’’اللہ کو ایک جان اور کسی سے نہ ڈر‘‘۔ (جب اللہ کو ایک جانا تو پھر کسی جن یا شیطان سے کیا ڈرنا)۔
کہتے ہیں کہ ڈرتے ہوئے میں نے پوچھا: ’’اے کہنے والے تو کیا کہتا ہے۔ کیا تو مجھے کوئی اچھی بات بتا رہا ہے یا مجھے گمراہ کر رہا ہے‘‘۔
پس اسی آواز نے مجھے دوبارہ جواب دیا۔ ’’یہ اللہ کے رسول ہیں جو نیکیوں والے ہیں۔ اللہ نے انہیں بھیجا ہے۔ لوگوں کو نجات کی طرف بلاتے ہیں۔ لوگوں کو گمراہ سے بچاتے ہیں اور صوم و صلوٰۃ کی طرف بلاتے ہیں‘‘۔
یہی وہ واقعہ تھا جو ان کے اسلام لانے کا سبب بنا۔
جنات سے مدد طلب کرنا حرام ہے۔ ساحرین اور جادوگروں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جنات کو طلب کر کے ان کے ذریعے ناجائز کام کراتے ہیں۔ وہ جنات کی خاطر شرک کرتے ہیں۔ شیاطین کی عبادت کرتے ہیں۔ جس کے بدلے میں شیاطین ان کی کچھ مدد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیاطین اور جنات سے مدد طلب کرنا حرام ہے۔ جادوگر شیاطین یا جنات کو طلب کرنے سے قبل ضرور ایسا کام کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اللہ رب العزت کے احکامات کی توہین ہوتی ہو۔
جب ہم چھوٹے تھے تو ہم نے کثرت سے ایک جادوگر کے بارے میں سنا تھا کہ وہ کسی بھی شیطان یا جن کو بلانے سے قبل نعوذ باللہ قرآن کریم کی توہین کرتا تھا۔ اس کے بعد شیطان اور جنات اس پر حاضر ہوتے تھے اور اس کی مدد کیا کرتے تھے۔ یہ واضح اور صریح کفر ہے۔ جبکہ جادوگروں کو بھی اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوتا ہے۔ لیکن چند روزہ طاقت کے نشے میں وہ اس دلدل میں اتر جاتے ہیں۔ پس جادوگر جو بھی تعویذات یا دوسری چیزیں لکھ کر دیتے ہیں۔ ان میں نہ صرف شرکیہ اور کفریہ باتیں لکھی ہوتی ہیں۔ بلکہ اس میں متبرک کتاب قرآن مجید کی بھی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسے کئی تعویذات اور دیگر چیزیں دیکھی ہیں۔ جنہیں جادوگروں نے تیار کیا تھا۔ ان میں کفریہ اور شرکیہ باتوں کے سوا کچھ نہیں پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے اپنی حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔ کیونکہ یہ دین اور دنیا دونوں کا خسارہ ہے۔
اکثر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ فلاں جگہ یا مقام پر جنات کا بسیرا ہے۔ یہ بات کس حد تک صحیح ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات سچی بھی ہو سکتی ہے اور جھوٹی بھی۔ سچی اس طرح کہ یہ بات جائز بھی ہے اور مشاہدے میں بھی آئی ہے۔ جبکہ اس بارے میں شریعت مطہرہ نے بھی واضح طور پر بتایا ہے۔ حدیث مبارکہ میں کئی مقامات پر مذکور ہے کہ گھروں میں جنات سانپ، بچھو اور دیگر حشرات کی صورت میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی لیے حدیث میں مذکور ہے کہ گھر میں سانپ کو مارنے سے قبل اسے اس بات کی اطلاع دی جائے کہ اگر وہ جن ہے تو فوری یہاں سے چلا جائے۔ اس کے بعد اس سانپ کو مارنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ یہ موذی جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح ابن حکیم سے روایت منقول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بغداد میں ایک گھر تھا۔ جس پر جنات کا سایہ تھا۔ جب بھی اس میں کوئی رات گزارتا۔ صبح ہم اسے مرا ہوا پاتے۔ ایک مرتبہ ایک حافظ قرآن شخص نے اس میں اصرار کر کے رات گزاری۔ صبح جب ہم نے اسے زندہ سلامت دیکھا تو ہمیں بڑی حیرانی ہوئی۔ ہم نے اس سے رات کے واقعے کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس نے رات کو گھر میں قیام کیا تو عشا کی نماز پڑھی اور قرآن کے بعض حصے کی تلاوت کی۔ ابھی وہ سونے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ کنویں سے ایک نوجوان نمودار ہوا۔ وہ اسے دیکھ کر بہت ڈرا۔ لیکن اس نے اسے کچھ کہنے کے بجائے اس سے قرآن کا کچھ حصہ سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ بات سن کر اس حافظ کا ڈر کچھ دور ہوا تو اس نے دریافت کیا کہ اس گھر کا قصہ کیا ہے۔ کنویں سے نمودار ہونے والے جن نے بتایا کہ وہ مسلمان جنات کا ایک گروہ ہے۔ اور اس سے قبل یہاں آنے والے تمام لوگ کافر اور فاجر تھے۔ جو شراب و کباب کا انتظام کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی نماز اور قرآن کی تلاوت میں حرج واقع ہوا کرتا تھا۔ پس وہ ان کا گلا گھونٹ دیا کرتے تھے۔ اس حافظ نے جواب دیا کہ رات کو مجھے تجھ سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے تو دن میں آنا۔ اس بات پر جن راضی ہو گیا اور اس کے بعد سے وہ جن دن کے اوقات میں کنویں سے باہر آتا۔ حتیٰ کہ وہ حافظ قرآن اس سے کافی مانوس ہو گیا تھا۔ اسی قسم کے اور بھی کافی سچے قصے ہیں۔ جو جنات کے انسانوں کے گھروں میں قیام کی دلیل ہیں۔ بہرحال اس بات کا جھوٹا پہلو یہ ہے کہ بعض لوگ اس قسم کی باتیں جھوٹ بھی پھیلا دیتے ہیں۔ جس کے ذریعے ان کا مقصد مالی منفعت اور شہرت کمانا ہوتا ہے۔