نواز طاہر:
چوہدری برادران کے درمیان اختلافات کئی ماہ گزرنے کے باوجود برقرار ہیں۔ سیاسی تعلقات اور تنظیمی امور میں برف نہیں پگھل سکی۔ البتہ دونوں خاندانوں میں سماجی رابطے بحال ہو گئے ہیں۔ سیاسی اختلافات ختم کرانے کیلئے کوششیں جاری ہیں اور عزیز و اقارب مایوس ہونے کے باوجود پرامید ہیں۔
واضح رہے کہ گجرات کے چوہدری برادران نے چوہدری ظہور الٰہی سے لے کر رواں سال کے اوائل تک یک جان دو قالب کے طور پر سیاسی زندگی گزاری اور مختلف اوقات میں حکومت کا حصہ رہے۔ اس دوران دونوں چوہدری پرویز الٰہی دو بار ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے علاوہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈپٹی وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ جبکہ چوہدری شجاعت حسین ایک سے زائد بار وفاقی وزیر داخلہ سمیت مختلف وزارتوں کے علاوہ ملک کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن ان دونوں کے سیاسی سفر میں رواں سال کے اوائل میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی عدم اعتماد کی تحریک کے دوران راستے تبدیل ہوگئے۔
چوہدری پرویز الٰہی اپنے بیٹے رکن قومی اسمبلی چوہدری مونس الٰہی کے کہنے پر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور چوہدری شجاعت حسین طویل عرصے بعد مسلم لیگ ’ن‘ کی قیادت کے ساتھ سیاسی تعلقات بحال ہونے پر پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ ان کے خاندان کے بعض عزیز و اقارب اور دیگر لوگوں نے ان کے مابین معاملات درست کرانے کی کوشش کی۔ مگر کامیاب نہ ہوسکی اور ق لیگ بحیثیت جماعت ہی تقسیم ہوگئی۔ دونوں خاندانوں میں کشیدگی کی انتہا اس وقت ہوئی جب پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بن رہے تھے۔ جس پر چوہدری شجاعت حسین نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کو خط لکھا کہ پرویز الٰہی سمیت مسلم لیگ ’ق‘ کے دس ارکان اسمبلی کے ووٹ شمار نہ کئے جائیں۔ کیونکہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے جو ہدایات جاری کی تھیں۔ ان کے برعکس عمل کیا جارہا۔ تاہم چوہدری پرویزالٰہی کو مسلم لیگ ’ق‘ کا پارلیمانی لیڈر تسلیم کرلیا گیا اور وہ وزیراعلیٰ منتخب قرار پائے۔
’ق‘ لیگ کے ایک رکن اسمبلی نے بتایا کہ دونوں خاندانوں میں صلح کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ بعد ازاں یہ کوششیں کچھ عرصہ کے لئے معطل رہیں۔ پھر جب چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف سخت بیان پر واضح کیا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران آخری لمحوں میں جنرل (ر) قمر باجوہ کے کہنے پر ہی عمران خان کا انتخاب کیا گیا تھا اور عمران خان جنرل، باجوہ کے ساتھ محسن کشی اور بہتان تراشی کر رہے ہیں۔ تو صلح کی کوشش کرانے والوں کو ایک بار پھر امید کی کرن دکھائی دی کہ چوہدری برادران میں اب صلح ممکن ہے اور یہ کوششیں دوبارہ شروع کردی گئیں۔ ذرائع کے مطابق اس کے باوجود کے چوہدری پرویز الٰہی اپنے بیٹے کی سیاست کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔ لیکن اس امر کو خوش آئند قرار دیا گیا کہ چوہدری پرویز الٰہی کا مقتدر اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے موقف بڑا واضح ہے۔
ایک طرف یہ کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین گروپ کی طرف سے پارٹی کے سیکریٹری جنرل چوہدری طارق بشیر چیمہ نے گزشتہ ہفتے ق لیگ پنجاب کے جنرل سیکریٹری سینیٹر کامل علی آغا کو ڈسپلن کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر نہ صرف ان سے تنظیمی عہدہ واپس لے لیا۔ بلکہ انکی بنیادی رکنیت بھی منسوخ کردی۔ سینیٹر کامل علی آغا پارٹی میں دراڑیں پڑنے پر ’ق‘ لیگ پنجاب کے صدر اور وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے کیمپ میں شامل ہوگئے تھے اور تمام تنظیمی امور دیکھ رہے تھے۔ ان پر پارٹی کے سربراہ چوہدری پرویز الٰہی کی تضحیک کا الزام بھی ہے۔
ق لیگ کی قیادت کے دیرینہ اور قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کو کسی وقت ایک پیج پر لایا جانا ناممکن امر نہیں۔ اصل مسئلہ دونوں بھائیوں کے بیٹوں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ جبکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے سبکدوش کیے جانے والے ق لیگ کے سیکریٹری، سینیٹر کامل علی آغا کے بارے میں بھی چوہدری شجاعت گروپ میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ خاندانی مراسم اور مراتب میں یہ شخص غیر مناسب کردار کا حامل ہے۔ جبکہ یہی رائے چوہدری پرویز الٰہی گروپ میں چوہدری شجاعت گروپ کے طارق بشیر چیمہ کے بارے میں پائی جاتی ہے اور اختلافات کا کسی حد تک ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
سینیٹر کامل علی آغا سے ان کے خلاف پارٹی ایکشن اور اس کی وجہ سے صلح کی کوششیں متاثر ہونے کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا لیکن بار بار کوشش کے باوجود انہوں نے گفتگو سے گریز کیا۔ تاہم ق لیگ کے رہنما اور سابق رکن پنجاب اسمبلی میاں عمران مسعود نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ چوہدری برادران میں اس حد تک برف پگھل چکی ہے کہ خاندانی سماجی روابط بحال ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے سے بات چیت بھی ہوتی رہتی ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنے کے حوالے سے چوہدری پرویز الٰہی کا موقف بڑا واضح ہے اور وہ اپنے موقف میں کوئی ابہام نہیں سمجھتے۔ البتہ دونوں بھائیوں میں دوبارہ ایک ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑے ہونے اور کب کھڑے ہونے یا کبھی متحد نہ ہونے کے بارے میں درست جواب چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین خود ہی دے سکتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ تاثر کم از کم میں درست نہیں سمجھتا کہ چوہدری برادران اپنے بیٹوں کی خواہش کو مدنظر رکھ کر ہی یا انہی کی تابع سیاسی فیصلے کر رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ چوہدری برادران خود بھی سیاسی شعور و ادراک رکھنے والے ہیں اور ان کے بیٹے بھی اپنے والدین کے فرمانبردار ہیں۔