میگزین رپورٹ:
اگر کسی گھر میں جنات کے بسیرے کا پختہ یقین ہو جائے تو انہیں گھر سے نکالنے کے بعض طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔
-1 جنات کے اثرات کے حامل گھر میں تین افراد پاک صاف باوضو ہو کر جائیں اور باآواز بلند یہ کلمات کہیں۔ ’’اے جنات! ہم تمہیں اس عہد کا واسطہ دیتے ہوئے اس گھر سے نکلنے اور یہاں سے جانے کو کہتے ہیں جو تم نے سلیمان علیہ السلام سے کیا تھا۔ ہم تم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ تم اس گھر سے نکل جائو اور کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائو‘‘۔ اس طرح تین دن تک مسلسل اس گھر میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے۔ جنات اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس گھر کو خالی کر دیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر محسوس ہو کہ گھر میں کوئی غیر مرئی مخلوق ہے تو ایک برتن میں پانی لیا جائے اور اسے منہ کے قریب کر کے یہ دعا پڑھ کر دم کیا جائے۔ ترجمہ: ’’قسم ہے ان فرشتوں کی جو صف باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر ان فرشتوں کی جو بندش کرنے والے ہیں۔ پھر ان فرشتوں کی جو ذکر کی تلاوت کرنے والے ہیں۔ کہ تمہارا معبود برحق ایک ہے۔ وہ پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، اور وہ پروردگار ہے طلوع کرنے کے مواقع کا۔ ہم ہی نے رونق دی ہے دنیا کے آسمان کو عجیب آرائش یعنی ستاروں کے ساتھ۔ اور حفاظت بھی کی ہے ہر شریر شیطان سے۔ وہ شیاطین عالم بالا کی طرف کان بھی نہیں لگا سکتے اور ہر طرف سے مار کر دھکے دیئے جاتے ہیں۔ اور ان کے لیے دائمی عذاب ہو گا۔ مگر جو شیطان کچھ خبر لے ہی بھاگتے ہیں تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ جاتا ہے‘‘۔ سورۃ الصافات آیت 1 سے 10۔
اس کے بعد اس پانی کو گھر کے چاروں طرف خصوصاً ہر کمرے کے کونوں میں اچھی طرح چھڑکیں۔ یہ طریقہ علاج ایسا ہے۔ جس کی وجہ سے اللہ رب العزت کے حکم کے ساتھ جنات اس گھر کو خالی کر دیں گے۔ مگر اس عمل میں شرط یہ ہے کہ دعا کے دوران نیت کا اخلاص اور اللہ رب العزت سے مدد کا طالب ہونا لازمی ہے۔ جس شخص کی نیت جتنی خالص اور قلب اللہ کی طرف جتنا راغب ہو گا۔ اللہ رب العزت اس کے کلام میں اتنی ہی تاثیر پیدا فرمائیں گے۔ اور جو شخص اس بات کو چھوڑ کر گمراہ ہونے والے اور کرنے والے جادوگروں، عاملوں اور نجومیوں کا رخ کرے گا۔ اس کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے کلام پاک پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
اللہ رب العزت نے جنات کو انسانوں کے مقابلے میں کم درجہ عطا فرمایا ہے۔ مشہور عالم شیخ ابوبکر الجزائزی حفظہ اللہ کا اس بارے میں کہنا ہے۔ ’’جنات حتیٰ کہ ان میں موجود صالحین اور متقین جنات بھی انسان کے مقابلے میں کم درجے، شرافت اور فضیلت کے حامل ہوتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے انسانوں کی جنات پر فضیلت کا اقرار خود سورۃ الاسرا میں فرمایا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے: ’’اور ہم نے آدم علیہ السلام کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔‘‘ (الاسرائ)۔
جس طرح اس آیت مبارکہ میں انسانوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآن یا حدیث میں اس طرح کہیں جنات کی فضیلت نہیں بیان کی گئی۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسانوں کو دیگر مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ بنانے کے ساتھ ساتھ جنات پر بھی فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اس بات کی دلیل وہ آیات بھی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات اس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ وہ انسانوں سے کم تر ہیں۔ لیکن جب جاہلیت کی تعلیمات کے ہاتھوں مجبور ہوکر انسان ان سے پناہ طلب کرتے تو ان کی بددماغی بڑھ جاتی اور وہ انسانوں کے سامنے بھی اپنی من مانیاں کرنے لگتے۔ قرآن کریم کی سورۃ الجن میں اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے۔ ’’اور بہت سے لوگ آدمیوں میں سے ایسے ہیں کہ وہ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے، سو ان آدمیوں نے ان جنات کی بددماغی بڑھا دی تھی‘‘۔ (سورۃ الجن)
اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ اللہ نے انہیں مرتبے اور شرف میں انسانوں سے کم تر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان جنات کے ناموں یا ان کے بڑوں کے ناموں کے ساتھ ان سے پناہ طلب کرتے یا کوئی مدد مانگتے ہیں تو وہ اسے یہ جانتے ہوئے پوری کر دیتے ہیں کہ انسان باوجود اپنی عظمت کے انہیں تعظیم دے رہے ہیں۔ البتہ ایسا اسلام اور کفر کی وجہ سے الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے کفار انسانوں کے مقابلے میں مومن جنات کو فضیلت حاصل ہے۔
شیخ ابوبکر الجزائری کا کہنا ہے کہ جنات کی جانب سے انسانوں کو ایذا پہنچانا دلیل سمعی، حسی اور عقلی سے جائز ہے۔ بلکہ اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتوں کو تعینات نہیں کیا گیا ہوتا تو انسان کبھی بھی جنات اور شیاطین سے اپنا بچائو نہیں کر سکتا تھا۔ بلکہ ہر انسان کسی نہ کسی جن یا شیطان کی چیرہ دستی کا شکار نظر آتا۔ ایسا اس لیے ہے۔ کیونکہ انسان جنات کے اجسام کو پکڑنے اور ان پر قابو پانے کی بظاہر قوت نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ لطیف حس کے حامل ہوتے ہیں اور ان کا آنا جانا ہوا کے مواقف محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح انسان ہوا کو پکڑنے، اسے روکنے یا اس پر قدرت پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی طرح جنات کے اجسام بھی اس کی قدرت سے باہر ہیں۔ البتہ یہ سوال اہم ہے کہ جنات انسانوں کو تکلیف کیوں پہنچاتے ہیں۔ ایسا کئی بنا پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان لاعلمی میں جنات پر گرم پانی یا اپنے کسی اور عمل کی وجہ سے انہیں ہلاک کر دیتے ہیں یا انہیں تکلیف پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح بعض مرتبہ انسان ان پر گندگی کر دیتے ہیں یا ویرانے میں ایسی جگہ پر پڑائو ڈالتے ہیں جہاں جنات کا بسیرا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے کاموں میں انسانوں کی جانب سے خلل محسوس کرتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں جنات انسانوں سے بدلہ لینے کے لیے انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس بدلے کے چکر میں انسانوں کو جان سے بھی مار دیتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض جنات بغیر کسی وجہ کے بھی انسانوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بعض انسان اپنی طبیعت میں عداوت اور بغض کی وجہ سے بغیر کسی وجہ کے دیگر انسانوں کو تکلیف پہنچا کر خوشی اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ پس جنات میں بھی ایسے پائے جاتے ہیں۔ جو بغیر کسی وجہ کے انسانوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ ایسا انسان اور جنات کے ایمان، کمزوری اور ارادے و عقل کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک قصہ حدیث شریف میں مذکور ہے۔ جس میں ایک انصاری نوجوان نے اپنے گھر میں داخل ہونے والے سانپ کو مارا تھا۔ جو دراصل سانپ کی شکل میں جن تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس نوجوان نے اس سانپ کو مارا تو سانپ کی شکل میں موجود اس جن نے بھی مرتے مرتے اس نوجوان انصاری کا کام تمام کر دیا۔ جس کی وجہ سے وہ دونوں ساتھ ساتھ مرے۔ یہ دونوں کام اتنی تیزی سے ہوئے تھے کہ ابو سعید خذریؓ کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ہم یہ بات نہیں جان سکے کہ ان دونوں میں سے کون زیادہ جلدی دوسرے کو مارنے والا تھا۔ اس واقعے کو منقول کرنے کے بعد الجزائری کا کہنا ہے کہ اس حقیقت کے مشہور ترین ہونے اور لوگوں کے اس بات کو تسلیم کرنے کی وجہ سے ہم اس سلسلے میں مزید دلائل پیش کرنے کے بجائے صحیح مسلم میں آنے والی انصاری کی حدیث پر ہی اکتفا کریں گے۔
الجزائری کا مزید کہنا ہے: اس کے علاوہ میں اس باب میں ایک اور واقعہ درج کرنا پسند کروں گا۔ جو خود ہمارے اپنے گھر میں پیش آیا تھا۔ اس واقعے کے ہم خود عینی شاہد ہیں۔ جبکہ اس کی وجہ سے میں نے جنات کے طرز عمل کا کافی قریب سے مشاہدہ بھی کیا ہے۔ میری ایک بڑی بہن تھی۔ جسے سب سعدیہ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم اپنے گھر کی چھت پر کوئی کام کر رہے تھے اور اس دوران ہم نے ایک رسی باندھی ہوئی تھی۔ جس کے ذریعے ہم کھجور کی شاخیں توڑ رہے تھے۔ ایک رسی کو کھینچتے ہوئے میری بہن نیچے گر پڑی اور اس وقت نیچے ایک جن موجود تھا۔ جس پر وہ گری تھی۔ اس طرح جن کو میری بہن کے گرنے سے شدید تکلیف پہنچی۔ بعد میں وہ جن میری بہن پر نیند کی حالت میں آتا تھا اور ایسا ہفتے میں دو یا تین بار ہوتا تھا۔ جب وہ میری بہن پر غلبہ پاتا تھا تو اس کا گلا گھونٹتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہو جاتی تھی۔ ان لمحات میں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی بکری یا مرغی کو ذبح کیا جائے تو وہ درد سے تڑپتی ہے۔ جن کے جانے کے بعد بھی وہ کئی گھنٹوں تک بے جان حالت میں پڑی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ اس نے میری بہن پر آنے کی حالت میں بتایا تھا کہ فلاں فلاں دن اس نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ اس کا بدلہ لے رہا تھا۔ وہ جن بہن پر صرف نیند کی حالت میں آتا تھا۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور وہ میری بہن کو تنگ کرتا رہا۔ یہاں تک کہ دس سال بیت گئے۔ اس کی ایذا رسانی جاری رہی۔ یہاں تک کہ میری بہن اس کی ایذا رسانی کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اللہ پاک میری بہن کی مغفرت فرمائے۔ کیونکہ اس نے اس دن اس جن کو جان بوجھ کر ہرگز تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ بلکہ وہ تو خود گر پڑی تھی۔
میں اس بارے میں یہ کہوں گا کہ ایسی صورتحال کو علما نے جنون اور مرگی سے تعبیر کیا ہے۔ جس میں بھی جنات کا عمل دخل ہوتا ہے۔