مسلمان جنات آیۃ الکرسی کی برکت سے علی کو چھڑا لائے۔فائل فوٹو
 مسلمان جنات آیۃ الکرسی کی برکت سے علی کو چھڑا لائے۔فائل فوٹو

’’جنات بھی مرگی یا جنون کا سبب بنتے ہیں‘‘

میگزین رپورٹ:
مرگی یا جنون انسان کی عقل میں آنے والے اس خلل کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے انسان نہ تو یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ ہی وہ اپنے قول و فعل میں اس بیماری کی وجہ سے یکسانیت رکھ سکتا ہے۔ ذہن میں واقع ہونے والے اس خلل کے نتیجے میں انسان جسمانی طور پر بھی صحیح حرکات و سکنات کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ جس کی وجہ سے وہ نہ تو صحیح طرح چل پاتا ہے اور نہ ہی اپنے قدموں کے فاصلے پر قدرت رکھتا ہے۔ مرگی یا جنون کی وجہ سے مرکزی طور پر انسان اپنے اقوال، اعمال اور سوچ پر قابو کھو بیٹھتا ہے۔

حافظ ابن حجر کی جانب سے کی گئی تعریف کے مطابق مرگی یا جنون وہ چیز ہے۔ جو انسان کے اعضائے رئیسہ کو اپنے اعمال انجام دینے سے کلی طور پر روک دیتی ہے۔ اس کا سبب وہ گندی ہوا اور بخارات ہیں۔ جو انسانی دماغ سے نکل کر تمام جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان پر تشنج کے دوروں کے علاوہ ایسی حالت ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان زمین پر گر جاتا ہے۔ اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگتا ہے۔ مرگی یا جنون بعض اوقات جنات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جبکہ جنات میں سے خبیث مخلوقات انسانی دماغ پر قبضہ جما لیتی ہیں۔ ایسا یا تو انسانی شکل و صورت پسند آنے کی وجہ سے ہوتا ہے یا بعض اوقات صرف تکلیف پہنچانے کی غرض سے جنات یہ حرکت کرتے ہیں۔ مرگی اور جنون کی پہلی قسم کا تذکرہ اطبا اور حکما کی جانب سے کثرت سے کیا جاتا ہے۔ جس کا علاج اور دوائیں بھی ان کی جانب سے تشخیص کی جاتی ہیں۔ جو دماغ سے اٹھنے والے غلیظ بخارات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ البتہ مرگی یا جنون کی وہ قسم جس کا وجود جنات کی وجہ سے سامنے آتا ہے۔ معالجین اس قسم کی بیماری کا علاج کرنے سے اکثر کتراتے ہیں۔ جبکہ بعض معالجین ایسے مریضوں کو ایسے عاملین کے پاس بھیجنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جو نیک عملیات کے ذریعے ارواح خبیثہ کو بھگانے کا تجربہ اور ملکہ رکھتے ہیں۔

مرگی یا جنون کا واقع ہونا دلائل سے ثابت ہے۔ ان دلائل میں عقلی دلائل بھی موجود ہیں اور نقلی بھی۔ یعنی یہ بات قرآن و احادیث سے بھی ثابت ہے اور بارہا انسانوں کو اس کا تجربہ بھی رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں، نہیں اٹھیں گے قیامت کے روز قبروں سے، مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان خبطی بنا دے لپٹ کر (حیران و مدہوش)، یہ سزا اس لیے ہو گی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کر دیا ہے۔‘‘ سورۃ البقرہ۔ آیت 275۔

امام قرطبی کا اس آیت کی تشریح میں کہنا ہے۔ ’’اس آیت میں ان لوگوں کے لیے دلیل ہے۔ جو مرگی یا جنون کے جنات کی جانب سے لاحق ہونے کی حقیقت سے انکار کرتے ہیں۔ جبکہ ان کا سمجھنا ہے کہ یہ محض ایک طبعی چیز ہے اور نہ تو شیطان انسان میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی جانب سے اثر ہوتا ہے‘‘۔
امام طبری کا اس آیت کی تفسیر میں مزید ایک حدیث نقل فرماتے ہوئے کہنا ہے۔ ’’مجھے بشر نے بتایا کہ انہیں یزید اور انہیں سعید نے قتادہ سے سن کر بتایا کہ ربا یا سود جاہلیت میں ایسی فروخت کو کہتے تھے۔ جو ایک وقت معین کے لیے کی جاتی تھی۔ پس جب وہ وقت آجاتا اور خریدنے والا پیسے دینے کی قدرت نہ رکھتا تو اس میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ پس اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ قیامت کے روز نہ کھڑے ہوں گے اپنی قبروں سے، سوائے اس حالت کے، کہ ایسا محسوس ہو گا گویا ان پر شیطان کا اثر ہو گیا ہے۔ یعنی جس طرح شیطان دنیا میں انسان پر چھا جاتا ہے تو اس پر مرگی یا جنون کا اثر ہو جاتا ہے، یعنی جنون‘‘۔

حافظ ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: (الذین یاکلون الربآ) الایۃ۔ یعنی وہ نہیں کھڑے ہوں گے اپنی قبروں میں مگر جیسے مرگی کی بیماری والا جس پر شیطان نے اپنا اثر ڈالا ہو۔

علامہ ابن آلوسی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں ذکر فرمایا ہے۔ ’’بے شک جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ قیامت کے روز مرگی یا جنون کے مارے شخص کی طرح اپنی قبروں سے نکلیں گے‘‘۔

اور اللہ تعالیٰ کا قول (من المس) کا مطلب ہے یعنی جنون والا۔ کہا جاتا ہے مس الرجل فھو مسوس۔ جب اسے جنون لاحق ہو یا جنات و شیاطین کا اثر ہو جائے۔ کیونکہ بعض اوقات شیطان انسان پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسان کے اعمال میں فساد واقع ہوتا ہے اور وہ جنون کی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے‘‘۔

یعلی بن مرۃ کہتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہؐ سے تین چیزیں ایسی دیکھی ہیں کہ نہ تو میرے بعد کسی نے دیکھی ہیں اور نہ ہی مجھ سے پہلے۔ ایک مرتبہ میں آپؐ کے ساتھ سفر پر نکلا۔ ہم ایک راستے پر جارہے تھے کہ ایک مقام پر ہمارا گزر ایک عورت پر ہوا۔ جو راستے میں اپنے بچے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ ہمیں دیکھ کر اس نے کہا۔ ’یا رسول اللہؐ یہ میرا بچہ ہے، جس پر آسیب کا اثر ہے اور اس کی وجہ سے ہم پر پریشانی آئی ہوئی ہے۔ وہ آسیب اس بچے پر دن میں نہ جانے کتنی مرتبہ اثرانداز ہوتا ہے‘۔ آپؐ نے اسے جواباً فرمایا کہ ’اسے میرے قریب لائو‘۔ پس اس عورت نے اس بچے کو آپؐ کے سامنے بلند فرمایا۔ آپؐ نے اس بچے پر تین مرتبہ پھونکا اور کہا ’’بسم اللہ، اناعبداللہ، اخساء عدو اللہ‘‘ ترجمہ: اللہ کے نام سے، میں اللہ کا بندہ ہوں، اے اللہ کے دشمن اس سے نکل جا۔ پھر اللہ کے رسولؐ نے بچہ اسے واپس کر دیا۔ ایک مقام پر یہی حدیث دیگر الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ مسند امام احمد میں درج ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے وکیع نے انہیں الاعمش نے انہیں منلا بن عمر نے انہیں یعلی بن مرہ نے اپنے والد سے سن کر بتایا کہ ایک عورت آپؐ کے پاس آئی اور اپنے ساتھ موجود بچے کے بارے میں کہا کہ اسے آسیب کا اثر ہے۔ پس آپؐ نے فرمایا: ’’اخرج عدواللہ انا رسول اللہ۔‘‘ ترجمہ: اے اللہ کے دشمن نکل جا اور میں اللہ کا رسول ہوں۔

کہتے ہیں کہ وہ بچہ صحیح ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ اس عورت نے دو بھیڑ کے بچے اور کچھ دوسری چیزیں ستو وغیرہ آپؐ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ستو اور ایک بھیڑ کا بچہ لے لو اور باقی اسے لوٹا دو۔

حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع کے لیے نکلے۔ ایک مقام پر ایک بدوی خاتون اپنے بچے کے ساتھ رسول اللہؐ کی جانب آئی اور کہا۔ اے اللہ کے رسولؐ یہ میرا بچہ ہے اور اس پر شیطان نے تسلط جمایا ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اسے میرے قریب کر۔ پس اس خاتون نے بچے کو آپؐ کے قریب کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس کا منہ کھولو۔ اس خاتون نے بچے کا منہ کھولا تو آپؐ نے اپنا لعاب مبارک بچے کے منہ میں ڈالا اور کہا: ’’اخسا عدو اللہ و انا رسول اللہ‘‘۔ ترجمہ: اللہ کے دشمن نکل جا اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ آپؐ نے یہی کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ پھر اس خاتون کو مخاطب کر کے کہا کہ اپنے بچے کو لے جا۔ اب اسے شیطان یا دیگر غیر مرئی مخلوق تنگ نہ کرے گی۔
عطا ابن ابی رباح سے منقول ہے کہ ابن عباسؓ نے انہیں فرمایا: کیا میں تمہیں جنتی خاتون نہ دکھائوں؟ کہتے ہیں میں نے کہا کہ ضرور دکھائیں۔ ایک خاتون کی جانب اشارہ کر کے کہنے لگے کہ یہ کالی خاتون نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا، اے اللہ کے رسولؐ مجھ پر مرگی اور جنون کا دورہ پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے میں بے پردہ ہو جاتی ہوں۔ پس آپؐ میرے حق میں دعا فرمایئے۔ آپؐ نے جواباً عرض کیا کہ تو چاہے تو صبر کرے اور اللہ اس کے بدلے تجھے جنت عطا فرمائیں گے، اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے دعا کروں کہ اللہ تیرے ساتھ عافیت والا معاملہ فرمائے۔ اس خاتون نے جواباً عرض کیا کہ میں صبر کو ترجیح دوں گی۔ پھر کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ میں بے پردہ ہوتی ہوں۔ پس اس کے لیے دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بے پردہ ہونے سے بچائے۔ اس کے اس قول پر اللہ کے رسولؐ نے اس کے حق میں دعا فرمائی۔ یہ حدیث بخاری و مسلم شریف میں مذکور ہے۔

یہ خاتون جن کا ذکر درج بالا حدیث میں ہوا۔ ان کا نام ام زفر تھا۔ جیسا کہ بخاری میں یہ بات عطا سے منقول ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان خاتون کو جو مرگی یا جنون کا مرض تھا، وہ جن کے لاحق ہونے کی وجہ سے تھا۔

امام حافظ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔ بزار کے نزدیک یہی واقعہ ابن عباس سے دیگر طرح منقول ہے کہ اس خاتون نے کہا۔ ’’میں اس خبیث مخلوق سے ڈرتی ہوں کہ وہ مجھے بے لباس نہ کر دے‘‘ ۔اور ظاہر ہے خبیث شیطان ہے۔ اسی لیے امام حافظ کا کہنا ہے کہ ام زفر کو جو جنون اور مرگی لاحق تھی۔ وہ جن کی وجہ سے نہ کہ دماغی امراض لاحق ہونے کی وجہ سے۔

ابن مسعودؓ سے منقول ہے کہ جب رسول اللہؐ نماز میں داخل ہوتے تو کہتے:
’’اللھم انی اعوذبک من الشیطان الرجیم وھمزہ ونفخہ و نفثہ‘‘۔ ترجمہ: اے اللہ میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں شیطان مردود سے اور اس کے ھمز سے اور نفخ سے اور نفث سے۔
کہتے ہیں کہ ھمز موت ہے اور نفث اس کی جانب سے لائے جانے والے وسوسے اور پھونکیں، جبکہ نفخ اس کا تکبر۔

کہتے ہیں کہ موت جنون اور مرگی کی ہی ایک جنس ہے۔ جب انسان کو اس میں افاقہ ہوتا ہے۔ اس کی عقل واپس لوٹ آتی ہے جیسے سویا ہوا یا نشے کے زیراثر۔
امام ابن کثیر کا کہنا ہے کہ الموتہ دراصل گلا گھونٹنا ہے۔ جو مرگی میں ہوتا ہے۔

عبدالکریم نوفان کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے ذریعے انسانوں میں جنات کی وجہ سے پڑنے والے مرگی یا جنون ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں آپؐ نے بھی ھمز یا موتۃ سے اللہ کی پناہ طلب کی ہے۔ اور ھمز کی تفسیر گزری ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ موت ہے جو انسان کو اس کی زندگی میں ہی آپکڑتی ہے۔ جو دراصل مرگی یا جنون ہے۔ کیونکہ مرگی یا جنون زدہ شخص اس حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ اسے مردہ گردانا جا سکتا ہے اور ایسا مرگی اور جنون کی وجہ سے اٹھنے والے درد کی وجہ سے ہوتا ہے۔

حضرت عثمان بن ابی العاضؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز کے دوران کسی چیز نے ان پر قبضہ جما لیا۔ حتیٰ کہ انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو سکتا تھا کہ وہ نماز میں کیا پڑھ رہے ہیں۔ جب انہوں نے یہ صورت حال دیکھی تو آپؐ کے پاس پہنچے۔ رسول اللہؐ نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن ابی وقاص تمہیں کا ہوا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہؐ مجھے معلوم نہیں۔ بس نماز کے دوران کوئی چیز مجھ پر حاوی ہو گئی ہے۔ حتیٰ کہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میں نماز کے دوران کیا پڑھ رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا وہ شیطان ہے۔ میرے قریب آئو۔ عثمانؓ، نبی کریمؐ کے سامنے اپنے قدموں پر بیٹھ گئے تو اللہ کے رسولؐ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: ’’اخرج عدو اللہ‘‘۔ ترجمہ: اے اللہ کے دشمن نکل جا۔ اس طرح نبی کریمؐ نے تین مرتبہ فرمایا۔ عثمانؓ فرماتے ہیں کہ میری عمر کی قسم اس کے بعد مجھ پر کبھی کوئی چیز حاوی نہ ہو سکی۔