امت رپورٹ:
وفاقی دارالحکومت کی فضاؤں میں مجوزہ ٹیکنو کریٹ حکومت کی افواہوں کا بازار گرم ہے۔ اس پر اب ٹاک شوز کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے۔ تاہم انتہائی ذمے دار ذرائع نے بتایا ہے کہ ٹیکنو کریٹ حکومت کی تجویز کسی بھی سطح پر زیر غور نہیں۔ جبکہ وفاقی حکومت بھی اس نوعیت کی اطلاعات مسترد کر چکی ہے۔ تاہم کاروباری طبقہ اس نوعیت کی خواہش ضرور رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ ٹیکنوکریٹ حکومت کا شوشہ سب سے پہلے ماہر معیشت شبر زیدی نے چھوڑا۔ جو تحریک انصاف کی حکومت میں ایف بی آر کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ موصوف نے چند روز پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا ’’معیشت ٹھیک کرنے کے لئے ایک طویل مدتی نگراں حکومت ہر کسی کی خواہش ہے۔ دو برس پر محیط نگراں حکومت وہ فیصلے کر سکتی ہے جو سیاسی حکومت نہیں کر پاتی‘‘۔ شبر زیدی کے ان خیالات کے بعد ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام سے متعلق افواہوں نے زور پکڑا۔ عمران خان نے بھی کہہ دیا کہ ’’ٹیکنو کریٹ حکومت لانے کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے‘‘۔
فواد چوہدری نے ایسے کسی اقدام سے باز رہنے کی تلقین کر ڈالی۔ لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ بات کس نے کہی ہے یا کس بنیاد پر ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بس ایک بھیڑ چال ہے کہ بلا تحقیق سب شروع ہیں۔
’’امت‘‘ نے حقائق جاننے کیلئے مختلف حلقوں اور خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ تک رسائی رکھنے والے ذرائع سے رابطہ کیا۔ کیونکہ خیالی ٹیکنو کریٹ حکومت کو لے کر اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف کیا جارہا ہے۔ معلوم ہوا کہ دو سالہ نگراں حکومت یا ٹیکنو کریٹ گورنمنٹ لانے کی تجویز کسی سطح پر زیر غور نہیں۔ اور یہ کہ اس نوعیت کی قیاس آرائیوں کا حقائق سے ایک فیصد تعلق بھی نہیں۔
ان ذرائع کے بقول باجوہ ڈاکٹرائن کا خاتمہ ہوچکا ہے اور موجودہ اسٹیبشلمنٹ، سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ لہذا اسٹیبلشمنٹ میں کسی سطح پر ایسی کوئی سوچ نہیں پائی جاتی۔ بظاہر اس قسم کے شوشے چھوڑنے کا مقصد جاری سیاسی بحران اور بے یقینی کو بڑھانا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کے اقتدار کے آخری برسوں میں جب سیاسی عدم استحکام بہت بڑھ گیا تھا تو ان دنوں ایک قومی حکومت یا ٹیکنو کریٹ گورنمنٹ کے آپشنز یقیناً زیر غور آئے تھے۔ لیکن جنرل باجوہ کے دور میں ہی اسٹیبلشمنٹ کے ’’اے پولیٹیکل‘‘ ہونے پر اس نوعیت کے آپشنز کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اسی پالیسی پر موجودہ اسٹیبلشمنٹ زیادہ سختی سے عمل کر رہی ہے۔
جب سیاسی حلقوں میں اس افواہ کا منبع تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس طرح کی باتیں سننے کو ملیں کہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے شوشے کی آڑ میں تحریک انصاف اپنا آخری حربہ آزمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ یہ شوشہ چھوڑ کر تحریک انصاف سیاسی عدم استحکام بڑھانا چاہتی ہے۔ لیکن اس بیان سے پوری پکچر واضح نہیں ہوتی۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے بقول تحریک انصاف کا اس شوشے کو ہوا دینا کثیر المقاصد ہے۔ سیاسی عدم استحکام بڑھانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف ٹیکنوکریٹ حکومت کے ہوّے کو نون لیگ کو ڈرانے کیلیے بھی استعمال کرنا چاہتی ہے۔
ذرائع کے مطابق چونکہ پی ٹی آئی اب تک اتحادی حکومت کو جلد انتخابات پر مجبور کرنے کیلئے اپنا ہر حربہ ناکامی سے دو چار ہوتا دیکھ رہی ہے۔ لہذا آخری کوشش کے طور پر وہ ٹیکنو کریٹ حکومت لانے کی افواہوں کو بڑھاوا دے کر اتحادیوں کو ڈرانا چاہتی ہے کہ افہام و تفہیم کیلئے اگر فوری الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرکے اس کی قومی اسمبلی میں واپسی کا راستہ ہموار نہ کیا گیا تو پھر دونوں ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور اسٹیبلشمنٹ طویل مدتی ٹیکنو کریٹ حکومت لاکر دونوں کو چلتا کرے گی۔ لیکن پی ڈی ایم کے ایک رہنما کے بقول لانگ مارچ اور صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے ڈراوے کی طرح پی ٹی آئی کا یہ تازہ حربہ بھی غیر مؤثر رہے گا۔ الیکشن اپنے وقت پر ہی کرائے جائیں گے۔ تاہم پی ڈی ایم ذرائع نے ایک بار پھر یہ تصدیق کی کہ وفاقی حکومت اور اس کی کلیدی اتحادی پارٹیوں میں عام انتخابات کو کم از کم ایک سے ڈیڑھ برس آگے بڑھانے پر مشاورت جاری ہے۔ اس کے قانونی پہلوئوں پر قانونی ماہرین سے مدد لی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ عام انتخابات کو آگے بڑھانے سے متعلق اتحادیوں کے پلان کی خبر رواں برس چھ نومبر کو سب سے پہلے
’’امت‘‘ نے ان ہی صفحات پر شائع کی تھی۔ آج سب اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم ذرائع کے مطابق اگر موجودہ اسمبلیوں کی مقررہ مدت تک اتحادی حکومت عوام کو توقعات کے مطابق ریلیف دینے اور معیشت سنبھالنے کا ٹاسک پورا کرنے میں ناکام رہی تو تب اس کیلئے عام انتخابات آگے بڑھانا زیادہ ضروری ہوجائے گا کہ عوام کو ریلیف دیئے بغیر الیکشن میں اترنا وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے لئے سیاسی خود کشی ہوگی۔ ان ہی خدشات پر اتحادیوں میں الیکشن آگے بڑھانے کی سوچ پیدا ہوئی۔
ٹیکنو کریٹ حکومت کی افواہوں کے حوالے سے جب کاروباری حلقوں سے سن گن لینے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ بزنس کمیونیٹی کے بعض اہم کردار اور چند ٹائیکون اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے ایک طویل مدتی نگراں ٹیکنو کریٹ حکومت ضرور چاہتے ہیں۔ اپنی اس خواہش کو انہوں نے شبر زیدی کے ذریعے آگے بڑھایا ہے۔ جس نے ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ شبر زیدی کو خود بھی اس طرح کا سیٹ اپ سوٹ کرتا ہے کہ وہ سندھ کی نگراں حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق کاروباری حلقوں کی بعض شخصیات یہ سمجھتی ہیں کہ اتحادیوں اور تحریک انصاف میں سے کسی کی حکومت بھی ملک کو موجودہ معاشی دلدل اور سیاسی بحران سے نہیں نکال سکتی۔ اس لئے وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ دو سے ڈھائی برس کے نگراں سیٹ اپ کا آئیڈیا پھیلارہے ہیں۔ تاکہ ایسی حکومت کے نتیجے میں سیاسی و معاشی استحکام آئے اور ان کا کاروبار چلے۔ تاہم کاروباری طبقے میں اٹھنے بیٹھنے والے ایک
سینئر تجزیہ کار کے بقول ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ ٹیکنو کریٹ کیا آسمان سے آئیں گے؟ ملک میں دستیاب بیشتر ٹیکنو کریٹس تو پہلے بھی آزمائے جاچکے ہیں۔ انہوں نے کون سا تیر مارا تھا۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ کرکٹ ٹیم کے غیر ملکی کوچ کی طرح اپنے شعبوں میں ماہر ٹیکنو کریٹس کو باہر سے لایا جائے۔ تاہم ماضی میں یہ تجربہ بھی بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ دو وزرائے اعظم معین قریشی اور شوکت عزیز امپورٹڈ تھے۔ دونوں اپنا الو سیدھا کرکے چلتے بنے۔ دونوں نے اپنے ادوار میں ملک کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچایا۔