معاملہ دبئی حکام کے سامنے اٹھانا چاہیے- جعلی ایجنٹوں کیخلاف بھی کارروائی کی جائے- فائل فوٹو
 معاملہ دبئی حکام کے سامنے اٹھانا چاہیے- جعلی ایجنٹوں کیخلاف بھی کارروائی کی جائے- فائل فوٹو

امارات سے ایک ماہ میں 1500 پاکستانی بے دخل

عمران خان:
متحدہ عرب امارات جانے والے شہریوں کو دبئی حکام کی جانب سے آڑے ہاتھوں لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ وزٹ ویزوں پر جا کر نوکریاں کرنے والے پاکستانیوں کو ملک بدر کرنے میں تیزی لائی گئی ہے۔ رواں برس صرف ایک ماہ میں وسط اگست سے ستمبر کے درمیانی عشرے کے درمیان ڈیڑھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کو ڈیپورٹ کرکے واپس پاکستان بھیجا گیا۔ یہ گزشتہ 70 برسوں میں کسی بھی ایک مہینے میں ڈیپورٹ کی جانے والی سب سے بڑی تعداد ہے۔

’’امت‘‘ کو موصولہ معلومات کے مطابق پاکستان اور یو اے ای حکام کی جانب سے سرکاری سطح پر 26 پاکستانی شہروں کے پاسپورٹ ہولڈرز پر ویزے کے اجرا کی پابندی کی تردید کے باجود مذکورہ پاکستانی شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو دبئی کے وزٹ ویزوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کیونکہ ان شہریوں کو اسکروٹنی کے سخت عمل سے گزارا جا رہا ہے۔ اس کی تصدیق پاکستان اورسیز ایمپلائز ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما نے بھی ’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت میں کی۔ جن شہروں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کو دبئی ویزا کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔ ان میں کوئٹہ، خوشاب، ڈی جی خان، ایبٹ آباد، مظفرآباد، سرگودھا، اٹک، ڈی آئی خان، کرم ایجنسی، قصور، نواب شاہ، شیخو پورہ، باجوڑ ایجنسی، ہنگو، کوہاٹ، اسکردو، لاڑکانہ، پارہ چنار، چکوال، ہنزہ، کوٹلی، ساہیوال، سکھر اور مہمند ایجنسی شامل ہیں۔

’’امت‘‘ کو ٹریول ایجنٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ اس معاملے کے دو رخ ہیں۔ ایک وہ پاکستانی ہیں جو دبئی کے وزٹ ویزوں پر جاتے ہیں اور دوسرے ایسے افراد جو ورک پرمٹ لے کر جاتے ہیں۔ وزٹ ویزے پر جانے والوں کی اسکروٹنی زیادہ سخت کی گئی ہے۔ جبکہ ورک پرمٹ پر جانے والوں کو مدت ملازمت سے زیادہ رکنے یا سلپ ہوکر دوسری ملازمت کرنے سے روکنے کیلئے ان کے ویزا لگوانے والے ایجنٹوں کیلئے شرائط کڑی کردی گئی ہیں کہ اگر ان کے ذریعے بھجوائے جانے والے افراد سلپ ہوئے تو انہیں 10 ہزار سے 15 ہزار درہم ادا کرنے ہوں گے یا ان کے لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں گے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ شہروں سے تعلق رکھنے والے شہری جب متحدہ عرب امارات کیلئے اپلائی کر رہے ہیں تو ایجنٹ پہلے ہی ان سے تحریری معاہدے کر رہے ہیں کہ ایک تو ان کو ویزہ ملنے کے امکانات 50 فیصد ہیں۔ اور اگر ان کو ویزے نہ ملے تو ایک مخصوص رقم کاٹ کر ان کے بقایا جات انہیں واپس کردیے جائیں گے۔

یہ غیر اعلانیہ پابندی یا اسکروٹنی نئی نہیں۔ بلکہ گزشتہ تین برسوں سے ہر چند ماہ بعد اس کو نافذ کردیا جاتا ہے۔ ’’امت‘‘ کو موصول دستاویزات کے مطابق رواں برس یہ معاملہ نئے سرے سے اس وقت سامنے آیا۔ جب ماہ جولائی میں اماراتی حکومت کی جانب سے وزٹ ویزوں پر دبئی آکر نوکریاں تلاش کرنے والے پاکستانی شہریوں کے خلاف ایک بڑا کریک ڈائون شروع کیا گیا اور ایسے افراد کو تلاش کرکے واپس ڈیپورٹ کیا جانے لگا۔

اسی دوران اس صورتحال کو مستقبل میں کنٹرول کرنے کے پیشگی اقدام کے تحت دبئی ایئر پورٹ پر بھی وزٹ ویزے پر آنے والے پاکستانی شہریوں کی چھان بین سخت کردی گئی۔ جس میں دبئی امیگریشن اسٹاف کی جانب سے وزٹ ویزوں پر دبئی آنے والے پاکستانیوں کے ریٹرن ٹکٹ کی تصدیق، ان کے پاس موجود شو منی کی مالیت اور انٹرویوز لینا شامل ہیں۔ جس کے نتیجے میں 8 اگست کو ایک ہی روز 80 پاکستانیوں کو دبئی ایئر پورٹ پر کلیئرنس دینے سے منع کردیا گیا اور ان میں سے 40 پاکستانی مسافروں کو انہی فلائٹوں سے واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ جبکہ دیگر 40 افراد کو بعد میں جانے والی فلائٹوں سے واپس کیا گیا۔ جس کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے اس معاملے کی چھان بین کی گئی۔ کیونکہ دبئی سے فوری واپس آنے والے شہریوں نے احتجاج کیا، کہ انہیں واپس لانے والی فضائی کمپنیوں نے ان سے واپسی کا کرایہ بھی وصول کیا ہے۔ جس پر عرب امارات کے امیگریشن حکام کا کہنا تھا کہ پاکستانی شہریوں کو ورک ویزے کے بجائے وزٹ ویزے، جعلی واپسی ٹکٹ اور متحدہ عرب امارات میں رہنے کیلئے ناکافی اماراتی نقدی کی وجہ سے ملک بدر کیا گیا۔

متحدہ عرب امارات سے 80 پاکستانیوں کو ڈمی ریٹرن ٹکٹس اور دیگر وجوہات پر ڈیپورٹ کیے جانے کے بعد دبئی میں پاکستانی قونصلیٹ نے اسلام آباد کو مطلع کیا کہ دبئی جانے والے پاکستانیوں کے پاس درست ویزا، 5 ہزار درہم اور واپسی کا ٹکٹ ہونا لازمی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کو لکھے گئے خط میں قونصل خانے نے بتایا کہ ان مسافروں کو مختلف وجوہات کی بنا پر ڈی پورٹ کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ وہ متحدہ عرب امارات میں ملازمت کے خواہشمند پاکستانی مسافروں کو مناسب ورک ویزا حاصل کرنے کو ترجیح دیں۔ خط میں کہا گیا کہ مسافروں کو متحدہ عرب امارات کا سفر کرتے وقت ویزہ کے ساتھ واپسی کی درست ٹکٹ اور 5 ہزار درہم اپنے ساتھ رکھنا لازمی ہے۔

دبئی ایئرپورٹ پر ہی بعض پاکستانی مسافروں کے احتجاج پر قونصلیٹ کے عملے نے ایئرپورٹ کا دورہ کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے امیگریشن حکام نے متعدد وجوہات کی بنا پر تقریباً 80 پاکستانیوں کا داخلہ روک دیا۔ ڈی پورٹ کیے گئے بیشتر افراد نے متحدہ امارات کے امیگریشن حکام کو بتایا کہ وہ وزٹ ویزے پر ملازمت کیلئے امارات آئے تھے۔ پاکستانی مشن نے یو اے ای کے امیگریشن حکام سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز کو متحدہ عرب امارات میں داخلے کی اجازت دیں، جن کے پاس درست ویزہ ہے۔ لیکن بتایا گیا کہ مذکورہ وجوہات کی بنا پر ان مسافروں کے داخلے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

متحدہ عرب امارات کے حکام نے کہا کہ ان سب کے پاس درست ٹکٹ کے ساتھ کم از کم 5 ہزار درہم نقد رقم ہونا لازمی ہے۔ اس کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ کی ہدایات پر ایف آئی اے کی جانب سے بھی معاملے کی انکوائری شروع کردی گئی۔ کیونکہ مسافروں کو دبئی ایئر پورٹ سے فوری واپس ڈیپورٹ کیے جانے سے سوالات پیدا ہوئے کہ اگر یہ مسافر غیر قانونی طور پر دبئی گئے تو انہیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ایئر پورٹس پر تعینات ایف آئی اے امیگریشن کے اسٹاف کی جانب سے کلیئرنس کیوں دی گئی۔ جبکہ ان مسافروں کے پاس ڈمی ریٹرن ٹکٹ تھے۔ جن کی ویری فیکیشن کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی۔
اس ضمن میں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اور دبئی ایئر پورٹ امیگریشن کے درمیان خط و کتابت میں دبئی ایئر پورٹ پر امیگریشن افسر گیان چند کی جانب سے تفصیلات سے آگاہ کیا گیا اور ایف آئی اے حکام کو بتایا گیا کہ دبئی میں وزٹ ویزہ پر جانے کے خواہشمند مسافروں کے پاس واپسی کے مصدقہ ریٹرن ٹکٹ اور 5 ہزار درہم کی موجودگی لازمی ہے۔ جبکہ ملازمت کیلئے آنے والوں کے پاس اصلی ورک پرمٹ ہونا ضروری ہے۔ 8 اگست کے بعد اگلے ہی ہفتے یعنی 15 اگست کو سول ایوی ایشن کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا۔ جس میں فضائی کمپنیوں، کسٹم حکام اور ایف آئی اے حکام کو مطلع کیا گیا کہ بیرون ملک جانے والے شہریوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے پاس موجود کرنسی اور سامان کی درست مالیت اور مقدار ڈکلریشن فارم میں ظاہر کر کے وہ فارم اپنی سفری دستاویزات کے ساتھ جمع کروائیں۔ اس کے بغیر مسافروں کو امیگریشن کلیئرنس، بورڈنگ کارڈ اور ٹکٹ بکنگ کی سہولت فراہم نہ کی جائے۔ اس مراسلے میں کہا گیا کہ یہ اقدام ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل در آمد کرکے رقوم کی غیر قانونی منتقلی کی روک تھام کیلئے کیا جارہا ہے۔

’’امت‘‘ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق ڈیپورٹ کئے جانے والے شہریوں کی 100 فیصد تعداد انہی 26 شہروں سے تعلق رکھتی ہے۔ جس کے بعد بیس دسمبر کے بعد ایک بار پھر ان شہروں کے افراد کی اسکروٹنی سخت کردی گئی۔ جس پر سوشل میڈیا میں ان شہروں کے نام کے ساتھ عرب امارات کے ویزوں کی پابندی کی پوسٹ وائرل ہوئی۔ جس پر دو روز قبل سرکاری سطح پر متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے اس خبر کی تردید جاری کی گئی۔ مگر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ تردید کے باجود غیر اعلانیہ اسکروٹنی کی آڑ میں ویزے مسترد کئے جا رہے ہیں یا پھر ان شہریوں سے سخت ترین حلف نامے بھروائے جا رہے ہیں۔

اس معاملے پر ٹریول ایجنٹوں کی تنظیم پاکستان اوورسیز ایمپلائنمنٹ پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے مرکزی عہدیدار محمد عثمان کے مطابق حکومت کو خط ارسال کیا گیا ہے کہ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اسے دبئی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے۔ کیونکہ بیرون ملک ملازمت میں متحدہ عرب امارات کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ تاہم اس معاملے پر جعلی ایجنٹ شہریوں کو جھانسا دے کر وزٹ ویزے پر بھیج رہے ہیں۔ جنہیں دبئی میں ملازمت کی تلاش میں مدد دینے کے بجائے لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہ شہری رقم ختم ہونے پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ تاہم جعلی ایجنٹ لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔ ایسوسی ایشن کی جانب سے مزید مطلع کیا گیا کہ وزٹ ویزوں پر بھی معاملہ سنگین ہوگیا ہے۔ یو اے ای حکام کی جانب سے ڈیپورٹ کیے جانے والے شہریوں سے پوچھ گچھ میں جو الزامات لگا کر اسکروٹنی سخت کی گئی ہے۔ ان کے مطابق ان شہروں کے افراد ویزے لے کر سلپ ہوجاتے ہیں اور وہاں ملازمت کرنے لگتے ہیں یا پھر تفریحی، ثقافتی اور صنعتی میلوں کے اطراف جمع ہوکر بھیک مانگتے ہیں۔ اس طرح کے میلے عرب امارات کی ریاستوں میں ہر ہفتے ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ حالیہ دنوں میں ان شہروں کے افراد کی اسکروٹنی سخت کرنے کی غیر اعلانیہ پالیسی اس لئے بھی عائد کی گئی کہ نئے سال کے موقع پر دنیا کی بڑی تقریبات میں سے کئی ایک متحدہ عرب امارات میں ہی منعقد ہوتی ہیں۔ جہاں یہ افراد موقع غنیمت جان کر بھیک مانگنے لگتے ہیں۔