عمران خان:
خشک اور دیسی چارے کی آزادانہ برآمد کی وجہ سے موسم سرما کے دوران دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافے کا خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بیکری آئٹمز کے پہلے سے آسمان کو چھوتے نرخ میں بھی ہوش ربا اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان ڈیری فارمز کے رابطے پر امریکی حکام نے مسئلے کے حل کیلئے ٹیکنالوجی دینے کے بجائے بیج استعمال کرنے کی تجویز دے دی۔ جبکہ پاکستانی حکام دیسی خشک چارے کی خلیجی ممالک کو ہونے والی بے قابو برآمد کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ گزشتہ ایک برس میں اس برآمد میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس کا سب سے بڑا اثر موسم سرما کے دوران دیکھنے میں آرہا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کے حکام ملک میں خوراک کی کم قیمتوں پر دستیابی سے متعلق اپنی اہم ترین ذمہ داری ادا کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوگئے ہیں۔ ڈیری کی صنعت سے جڑے اسٹیک ہولڈرز کا کہنا ہے کہ دودھ سمیت مختلف ڈیری مصنوعات کی پیداوار کیلئے ضروری مال کی بڑھتی ہوئی برآمد نے گوشت اور دودھ جیسی خوراک کو عوام کی پہنچ سے دور کردیا ہے۔
ڈیری فارمز اور کٹو مال فروخت کرنے والے گوشت فروشوں کے مطابق گزشتہ عرصہ میں گائے اور بکرے کے مسلسل مہنگے ہونے والے گوشت کی وجہ سے اس کی فروخت میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یعنی غریب خاندانوں میں گوشت کا استعمال مکمل طور پر ختم ہورہا ہے۔ جبکہ متوسط طبقے میں بھی اب ہفتے میں ایک آدھ بار گوشت پکایا جاتا ہے۔ ڈیری فارمز ز کے مطابق گندم، مکئی کا چوکر، بھوسہ، رائس پالش اور الفاس گھاس جیسی جانوروں کی دیسی خوراک خلیجی ممالک کو بھجوائی جا رہی ہے۔ جس پر وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اور آنے والے دنوں میں دودھ فی لیٹر 250 روپے کی تاریخی حد عبور کرنے کے اندیشوں نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔
اس وقت شہر کے بیشتر علاقوں میں دودھ 190 روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا ہے۔ جبکہ اس کی سرکاری قیمت کمشنر آفس کی جانب سے 180 روپے فی لیٹر مقرر ہے۔ دوسری جانب ڈیری فارمزز کا کہنا ہے کہ اس وقت دودھ کی قیمتیں مقرر کرنے میں ان کی نہیں مانی گئی اور کم قیمت رکھی گئی ہے۔ حالانکہ اخراجات کے پیش نظر ایک لیٹر دودھ پر خرچہ 200 روپے سے اوپر آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے ڈیری فارمزز کی جانب سے کمشنر کے ساتھ میٹنگ میں دودھ کی سرکاری قیمت 230 روپے فی لیٹر مختص کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اسی طرح سے بکرے کا گوشت سرکاری قیمت سے فی کلو 500 روپے زیادہ یعنی 1100 روپے کلو کے بجائے 1700روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے۔ جبکہ گائے کا گوشت سرکاری قیمت سے 270 روپے فی کلو اضافی یعنی 580 روپے کلو کے بجائے 850 سے 900 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔ شہریوں کے مطابق گوشت فروشوں نے اپنی من مانیاں کرتے ہوئے مرضی کے نرخ مقرر کر لیے ہیں۔ لیکن پرائس کنٹرول کمیٹی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ملک میں دودھ اور بڑے گوشت کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کی وجوہات جاننے کیلئے ’’امت‘‘ کی جانب سے ڈیری کی صنعت سے منسلک افراد سے معلومات حاصل کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ اس شعبے میں گرانی اور تنزلی ایک دو برس کی کوتاہیوں اور غفلت کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ گزشتہ دہائیوں سے ہی ملک میں مناسب قیمتوں پر خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ذمے دار اداروں کی نااہلی نے صورتحال کو بد سے بدترین سطح تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں سب سے اہم کردار وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اور چاروں صوبوں کے محکمہ لائیو اسٹاک کے حکام کا بھی رہا ہے۔
اس وقت دودھ اور گوشت کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں اور یہ اشیا کروڑوں شہریوں کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ اس ضمن میں ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین شاکر گجر کا کہنا تھا کہ ’’وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کے قیام کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ ملک میں سستی خوراک کی پیداوار سے عوامل کو مناسب ماحول اور سہولیات فراہم کر کے ضرورت کے مطابق یا وافر مقدار میں اس کی دستیابی کو ممکن بنایا جاسکے۔ جس کیلئے مختلف قسم کے قوانین بھی بنائے گئے اور اس حوالے سے مانیٹری اور ریگولیٹری اتھارٹیاں بھ قائم کی گئیں۔ تاہم یہ ادارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کیونکہ ملک میں دودھ اور گوشت کی ارزاں قیمتوں پر فروخت اسی وقت ممکن ہے۔ جب جانوروں کو وافر مقدار میں کم نرخوں پر خوراک دستیاب ہو۔ جس میں گندم کا چوکر، مکئی اور بھوسہ جیسی دیسی خوراک سب سے اہم ہے۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں گندم اور مکئی کے سیزن میں جتنا چوکر، بھوسہ اور چارا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی زیادہ مقدار خلیجی ممالک کو بر آمد کردی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں دیسی چارہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ڈیری فامرز کو متبادل کے طور پر انڈونیشیا اور ملائیشیا سے پام کرنل، ڈی ڈی جی ایس اور دالیں درآمد کرنی پڑتی ہیں۔ جو انتہائی مہنگی ہیں۔
اسی وجہ سے دودھ اور گوشت کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ مجبوری بن جاتی ہے‘‘۔ ایک سوال پر شاکر گجر کا کہنا تھا کہ ’’کسی بھی ملک کے اداروں کی سب سے پہلی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ پہلے ملکی ضروریات کو سامنے رکھیں۔ اس کے بعد بر آمدات کو دیکھیں۔ لیکن یہاں سب کچھ الٹا ہو رہا ہے۔ اپنے ملک کی اشیا باہر بھیج دی جاتی ہیں اور پھر اپنی ضروریات کیلئے چیزیں باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔ اگر آج دیسی چارے کی برآمدات پر پابندی عائد کردی جائے اور صرف بھوسہ اور چوکر ہی مقامی مارکیٹ میں ڈیری فارمز کو وافر مقدار میں مل جائے تو دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں 40 سے 50 فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ جس کا براہ راست فائدہ عوام کو ہی ملے گا‘‘۔
شاکر گجر نے بتایا کہ اس وقت وہ ملک کے ڈیری فارمرز کے ساتھ مل کر دیسی چارہ کی بیرون ملک منتقلی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ جس کیلئے انہوں نے وفاقی حکومت کے کئی عہدیداروں سے بھی ملاقات کی ہے۔ انہوں نے بات سنی ضرور۔ لیکن اب تک اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی سے ڈیری فارمرز اپنا کاروبار لپیٹ کر پنجاب منتقل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کراچی کے کئی ڈیری فارمرز نے لاہور میں کام شروع بھی کردیا ہے۔ جو اس سب سے بڑے اور اہم شہر کے ساتھ ایک اور بڑی زیادتی ہے۔ یہاں کے عوام کا قصور کیا ہے کہ ماضی میں ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعت مناسب ماحول چھن جانے کی وجہ سے پنجاب منتقل ہوئیں اور اب ڈیری فارمرز کی باری آگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے حکومتی سطح پر چھوٹے ڈیری فارمرز کے بجائے ڈبوں میں دودھ کے پائوڈر گھول کر فروخت کرنے والی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچانے کی پالیسی پر ہی عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ جبکہ صوبائی لائیو اسٹاک کے محکمہ کے افسران خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
صرف کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر 2 ہزار کٹے اور 2 ہزار بھینسیں گوشت کیلئے ذبح کی جا رہی ہیں۔ جو لائیو اسٹاک کے قوانین کے تحت جرم ہے۔ کٹو مال کیلئے صرف نر جانور استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح متبادل کے طور پر ملک میں ڈیری کی صنعت کیلئے استعمال ہونے والے جانوروں کی جینیاتی صلاحیت بڑھانے کیلئے بھی اب تک حکومتی سطح پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ حالانکہ جانوروں میں جینیاتی فروغ کے ذریعے 10 برس کے عرصہ میں ایسی نسل تیار کی جاسکتی ہے۔ جو ایک وقت میں 8 یا 10 کلو کے بجائے 25 سے 35 کلو تک دودھ دے سکتی ہے۔