نواز طاہر:
پنجاب میں سیاسی درجہ حرارت ایک ہفتے کے وقفے کے بعد پھر بڑھنا شرع ہوگیا ہے اور وزیراعلیٰ کے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ نو جنوری کو اسمبلی اجلاس بلالیا گیا ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی دس سے بارہ جنوری تک اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں۔ جبکہ وزیراعلیٰ نے اچانک اسمبلی کی نئی عمارت کا بھی افتتاح کر دیا ہے۔ ادھر صوبے میں حکومتی اتحاد کی بڑی جماعت تحریکِ انصاف میں دراڑیں دکھائی دینا شروع ہوگئی ہیں۔ جس کی ابتدا مجلس وحدتِ المسلمین کی جانب سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ نہ دینے کے اعلان سے ہوئی۔ جبکہ حکومتی اتحاد ابھی بھی وزیراعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ کے معاملے پر عدالت سے ریلیف پر زیادہ انحصار کر رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے لاہور سے واپس کراچی جانے اور وزیراعظم شہباز شریف کے اسلام آباد چلے جانے کے بعد لاہور میں سیاسی درجہ حرارت گرگیا تھا۔ جس سے حکومتی اتحاد بظاہر سکون دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن اچانک اس میں ہلچل شروع ہوگئی ہے اور مجلس وحدت المسلمین وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
متحدہ مجلس وحدت المسلمین کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے اعتماد کے ووٹ کے معاملے پر ایم ڈبلیو ایم پولیٹیکل کونسل نے مشاورت کے بعد اہم فیصلہ کیا ہے۔ جس کے مطابق ایم ڈبلیو ایم کی رکن پنجاب اسمبلی سیدہ زہرا نقوی وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گی۔ ایم ڈبلیوایم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے بعض اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ واضح رہے کہ سیدہ زہرا نقوی پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے خواتین کے مخصوص کوٹے پر منتخب کی گئی تھیں۔
ان کی بنیادی جماعت کے اعلان کے بعد ’’امت‘‘ نے کئی بار سیدہ زہرا نقوی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا ٹیلی فون مسلسل مصروف ملا۔ جبکہ ان کے ساتھی اراکین اسمبلی نے بھی ان کا ٹیلی فون ’مصروف ‘ ملنے کی تصدیق کی ہے اور خیال ظاہر کیا کہ شاید وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی تصدیق بھی ہوئی کہ مجلس وحت المسلمین نے اپنے ہم خیال اراکین سے بھی رابطے کیے ہیں۔ لیکن یہ تصدیق نہ ہو سکی کہ ان رابطوں کے نتائج کیا برآمد ہوئے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی موجودہ پولیٹیکل موو میں ایم ڈبلیو ایم کا پہلی بار سیاسی تحرک سامنے آیا ہے۔
سیدہ زہرا نقوی کا ووٹ ظاہر ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے ایک سو نوے ووٹوں میں سے دو ووٹ وزیراعلیٰ کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ جن میں سے ایک ووٹ سابق ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کا بھی شامل ہے۔ جبکہ اپوزیشن ایسے اراکین کی تعداد چھبیس ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے ذرائع بھی آف دی ریکارڈ وزیراعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کیلیے ایک سو چھیاسی اراکین دستیاب نہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور اسے وزیراعلیٰ کا دردِ سر سمجھتے ہیں۔ جو اسمبلی کی تحلیل کے بجائے اسے برقرارکھنے کے خواہاں ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کا باقاعدہ افتتاح کرنے کا بھی اچانک فیصلہ کیا اور بنیادی امور کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے۔ جبکہ اس سے پہلے اسپیکر کی حیثیت سے وہ عمران خان کو بحیثیت وزیر اعظم اسی تقریب کیلئے مہمانِ خصوصی بنانے میں ناکام رہے تھے۔ اس اچانک فیصلے نے اپوزیشن کے اس دعوے کو تقویت دینا شروع کر دی ہے کہ وہ آئندہ دنوں کی ممکنہ صورتحال محسوس کر چکے ہیں اور زیر التوا معاملات جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔ دریں اثنا پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ بھی تبدیل کردی گئی ہے اور نو جنوی کو اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ اس سے پہلے گیارہ جنوری مقرر کی گئی تھی۔
جبکہ گیارہ جنوری کو عدالت عالیہ لاہور میں وزیراعلیٰ کی طرف سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے گورنر کے اقدام کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر ہے اور مسلم لیگ ق کے اراکین کی طرف سے خیال کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک رکن پنجاب اسمبلی کے مطابق چودھری پرویز الٰہی کو نون لیگ کے اراکین بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔ تاہم وہ کسی کا نام بتانے سے گریزاں ہیں۔ اس کے برعکس مسلم لیگ ’ن‘ کے ناراض اراکین بھی اب مکمل طور پر پارٹی کی قیادت کے رابطے اور اعتماد میں ہیں۔ انہی میں سے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن چودھری اشرف انصاری تین روز پہلے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرکے ناراض اراکین کی پوزیشن واضح کرچکے ہیں۔
ادھر پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی مرکزی قیادت نے کیا طے کیا ہے یہ تو وہی جانتی ہے۔ لیکن تاحال اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے یا نو جنوری کے اجلاس کے حوالے سے کوئی خاص ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔ جہاں تک گورنر کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کے آئینی حکمنامے کا معاملہ ہے۔ تو ایسے کون سے حالات ہیں جن میں اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہے؟ یہ معاملہ عدالت میں ہے اوران کی قانونی ٹیم گورنر کے احکامات کا عدالت میں مقابلہ کرے گی۔ دوسری جانب پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ’ن‘ بھی متحرک ہوگئی ہیں۔
نون لیگ کے سربراہ نواز شریف نے پارٹی رہنمائوں کو متحرک کر دیا ہے۔ جبکہ دو سابق گورنر چوہدری محمد سرور اور مخدوم احمد محمود بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ جن کی ملاقات پیر کو مخدوم ہائوس لاہور میں ہوئی۔ جس میں اتفاق کیا گیا کہ موجودہ ملکی حالات میں تمام سیاسی پارٹیوں اور دینی جماعتوں سمیت محب وطن پاکستانیوں کو مل کر ملکی تعمیر و ترقی عوام کی خوشحالی کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کی سیاست زیر بحث رہی۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آنے والے دنوں میں جنوبی پنجاب کی سیاست کو اہم ترین کردار کا حامل قراردیا جارہا ہے۔ جس میں جہانگیر ترین بھی پی ڈی ایم کے ساتھ سرگرم ہیں۔