احمد خلیل جازم:
اسلام آباد کی تاریخ لکھنے والوں نے اس کا قدیم نام ’راج شاہی‘ بیان کیا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق دنیا کے قدیم ترین پتھر کے زمانے کے کچھ نوادرات سطح مرتفع پر ملے ہیں۔ جن کی تاریخ 100,000 سے 500,000 سال پہلے کی ہے۔ دریائے سواں کی چھتوں سے برآمد ہونے والے ابتدائی پتھر برفانی دور میں ابتدائی انسانوںکی رہائش گاہوں کی گواہی دیتے ہیں۔
قبل از تاریخ سے متعلق مٹی کے برتنوں اور برتنوں کی اشیا ملی ہیں۔ 2015-16ء میں وفاقی محکمہ آثار قدیمہ نے ثقافتی ورثے کے لیے قومی فنڈ کی مالی مدد سے ابتدائی آثار قدیمہ کی کھدائی کی۔ جس میں شاہ اللہ دتہ غاروں کے قریب بان فقیراں میں بدھسٹ اسٹوپا کی باقیات کا پتا چلا۔ جو دوسری سے پانچویں صدی عیسوی تک کی تاریخ کے نشانات ہیں۔ اسلام آباد 10 ویں صدی سے لے کر جدید دور تک کی تہذیب اور فن تعمیر پر قائم ہے۔ چونکہ اسلام آباد پوٹھوہار سطح مرتفع پر واقع ہے۔ اس لیے پتھر کے زمانے کی تہذیب کی باقیات میں اچیولین اور سوانی روایات شامل ہیں۔ اسلام آباد کے تاریخی نشانات بھی ہندو تہذیب کی عکاسی کرتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالغفور لون کے مطابق ’’یہاں کھدائیوں کے دوران جو انسانی کھوپڑیاں ملی ہیں۔ وہ 5000 قبل مسیح کی تھی۔ جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ یہ خطہ ’نو، پستان‘ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا آبائی علاقہ تھا۔ یہ لوگ دریائے سواں کے کنارے آباد تھے۔ وادی سندھ کی تہذیب اس خطے میں 23 ویں اور 18 ویں صدی قبل مسیح کے درمیان پروان چڑھی۔ بعد میں یہ علاقہ آریائی برادری کی ابتدائی بستی میں شامل ہوا۔ جو وسطی ایشیا سے اس خطے میں ہجرت کرکے آئے تھی۔ بہت سے عظیم فاتحین جیسے کہ ظہیر الدین بابر، چنگیز خان، تیمور اور احمد شاہ درانی نے برصغیر پاک و ہند پر اپنے حملوں کے دوران اس خطے کو عبور کیا‘‘۔
اس کے ایک قدیم گائوں سید پور کے حوالے سے معروف صحافی اور تاریخ نویس سجاد اظہر لکھتے ہیں ’’مرزا فتح علی بیگ جو مغل خاندان کا ایک صوفی منش آدمی تھا۔ وہ اس علاقے میں 1530ء میں آیا۔ جس کے نام کی نسبت سے یہ گاؤں فتح پور باؤلی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ کیونکہ یہاں ایک باؤلی (کنواں) بھی تھی۔ جب اکبر اعظم کے دور میں راولپنڈی کے بعض علاقے مغل سلطنت کا حصہ بنے تو فتح پور باؤلی بھی ان میں سے ایک تھا۔ تب یہ علاقہ سید خان گکھڑ کی ملکیت تھا۔ جس کی مناسبت سے اسے سید پور کہا جانے لگا۔ خطہ پوٹھوہار میں ہندوؤں کے تین متبرک تیرتھ ہیں۔ سید پور، ٹلہ جوگیاں اور راج کٹاس۔ کشمیری دانشور اوپ ٹالا کے مطابق سید پور کے مقام پر سنسکرت کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی تھی۔ جہاں رام، سیتا اور لکشمن بن باس کے دوران آئے تھے۔ آج بھی سید پور میں رام سیتا اور لچھمن کنڈ موجود ہیں‘‘۔ اسی خطہ ارضی کو1958ء میں اس وقت کے صدر ایوب خان نے پاکستان کے دارالحکومت کے لیے منتخب کیا اور یہاں شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
’’اسلام آباد کا نام ایک اسکول ٹیچر نے تجویز کیا تھا‘‘
سی ڈی اے کے مطابق ’’اسلام آباد شہر کا نام عارف والا پنجاب کے ایک اسکول ٹیچر قاضی عبدالرحمان نے تجویز کیا۔ 24 فروری 1960 ء کواس وقت کے صدر مملکت ایوب خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں تمام تجاویز کا جائزہ لیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ نئے قائم کیے جانے والے پاکستان کے اس وفاقی دارالحکومت کا نام اسلام آباد ہوگا۔ اس نئے دار الحکومت کے لیے زمین کا انتظام کیا گیا۔ جس میں صوبہ خیبر پختون اور صوبہ پنجاب سے زمین لی گئی۔ عارضی طور پر دارالحکومت کو راولپنڈی منتقل کر دیا گیا اور 1960ء میں اسلام آباد پر ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا۔ شہر کی طرز تعمیر کا زیادہ تر کام یونانی شہری منصوبہ دان Constantinos A. Doxiadis نے کیا۔ 1968ء میں دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد سے 1958ء تک پاکستان کا دارالحکومت کراچی رہا۔ کراچی کی بہت تیزی سے بڑھتی آبادی اور معاشیات کی وجہ سے دار الحکومت کو کسی دوسرے شہر منتقل کرنے کا سوچا گیا۔
دار الحکومت بننے کے بعد اسلام آباد نے پاکستان بھر سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ساتھ ساتھ دار الحکومت کے طور پر اس شہر نے کی اہم اجلاسوں کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی بھی کی‘‘۔
وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ دو دہائیوں سے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی بیس لاکھ چودہ ہزار آٹھ سو پچیس نفوس پر مشتمل تھی۔ جبکہ اگر دوہائیاں قبل 1998ء کی مردم شماری کا ریکارڈ دیکھیں تو یہ تعداد آٹھ لاکھ باون ہزار کے لگ بھگ تھی۔ یوں بیس برس میں آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ جبکہ اسلام آباد کا کل رقبہ جو 1960ء کے ماسٹر پلان کے مطابق دو لاکھ پچیس ہزار ایکڑ تک محیط تھا۔ وہ بدستور اتنا ہی ہے۔ اس میں گزشتہ دو دہائیوں میں اضافہ ہوا یا ابھی تک یہی ماسٹر پلان چل رہا ہے؟ اس کے لیے گزشتہ حکومت نے 2021ء میں نیا ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اسلام آباد کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے لیے گزشتہ ساٹھ برسوں سے جاری نئے ماسٹر پلان کی ضرورت ہے۔
’’اکثریت کی مادری زبان پنجابی ہے‘‘
اسلام آباد میں مختلف قوموں کے لوگ آباد ہیں جن میں پشتو، ہندکو، پنجابی، سرائیکی ، بلوچی اور سندھی سمیت پوٹھوہاری زبانیں بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مردم شماری تنظیم کے ایک اندازے کے مطابق ’’اسلام آباد کی آبادی 2017ء میں تقریباً 20 لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ (غیر سرکاری ذرائع کے مطابق یہ آبادی 25 لاکھ سے زائد ہے)۔ اردو زبان ملک کی قومی و سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے شہر کے اندر بولی جاتی ہے۔ جبکہ انگریزی بھی وسیع پیمانے پر مستعمل ہے۔ شہر میں دیگر بولی جانے والی زبانوں میں پنجابی، پشتو اور پوٹھوہاری شامل ہیں۔ آبادی کی اکثریت کی مادری زبان پنجابی ہے، جو 68 فیصد ہے۔
آبادی کا 10 فیصد پشتو بولنے والے ہیں اور 8 فیصد دیگر زبانے بولنے والے ہیں۔ تقریباً 15 فیصد سندھی زبان بولنے والے ہیں۔ 20 فیصد بلوچی زبان بولنے والے ہیں۔ شہر کی آبادی کے لوگوں میں زیادہ پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ آبادی کی اکثریت 15-64 سال کی عمر کے گروپ میں ہے۔ آبادی کے صرف 3 فیصد حصے کی عمر 65 سال سے اوپر ہے۔ جبکہ 37 فیصد 15 سے کم عمر کی ہے اور بیروزگاری کی شرح 15.70 فیصد ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت اسلام آباد میں دوسرا سب سے بڑا مذہب مسیحیت ہے۔ جس کے بعد ہندو شامل ہیں۔ یاد رہے کہ مردم شماری کے یہ ریکارڈ صرف شہری علاقوں کے لیے ہیں۔ ان میں نجی سوسائٹیاں شامل نہیں۔
اسلام آباد کی تاریخ سے واقف تاریخ نویسوں کا کہنا ہے کہ ’’اسلام آباد کی تاریخ میں باغ کلاں نامی گاؤں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام آباد کی شروعات اسی گاؤں سے ہوئی۔ کٹاریاں گاؤں یعنی جی فائیو سے تھوڑا پیچھے باغ کلاں نام کا یہ گاؤں تھا۔ اسے ’باگاں‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اسی گاؤں میں سیکٹر جی سکس آباد ہوا۔ ادھر ہی اسلام آباد کا سب سے پہلا کمرشل زون تعمیر کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کے لیے سب سے پہلے رہائشی کوارٹرز بھی اسی گاؤں میں تعمیر کیے گئے۔ انہی زیر تعمیر کوارٹرز میں سے ایک میں اسلام آباد کا پہلا پولیس اسٹیشن اور پہلا بینک قائم کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں قائم تھے۔ یہ کوارٹرز آج بھی موجود ہیں اور انہیں لال کوارٹر کہا جاتا ہے۔
1961ء کی مردم شماری میں راولپنڈی کی حدود میں باغ کلاں یعنی باگاں نام کا یہ گاؤں موجود تھا۔ اس کا رقبہ 698 ایکڑ تھا اور اس کی آبادی 663 افراد پر مشتمل تھی۔ باگاں بعد میں دارالحکومت بن گیا۔ مگر 1961ء کی مردم شماری تک یہ جی سکس نہیں، باغ کلاں تھا‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ اسلام آباد کی تعمیر سے قبل یہاں کافی تعداد میں دیہات موجود تھے اور یہاں زیادہ تر مقامی راجے اور گھکڑ یا کھٹڑ رہتے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں 160 دیہات موجود تھے۔ اسلام آباد شہر کی تعمیر کے دوران مارگلہ کے دامن میں واقع بہت سے دیہات جیسے نور پور شاہاں، شاھدرہ، سیدپور اور گولڑہ شریف کو اسلام آباد کا دیہی علاقہ قرار دے کر ان کی اصل شکل کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس دیہی علاقے کا مجموعی رقبہ 38906 مربع کلومیٹر ہے۔ سیدپور اور شاہ اللہ دتہ قدیم ترین دیہات ہیں۔ اس گائوں میں گکھڑ برادری کی اکثریت ہے۔ جبکہ جنجوعہ راجپوت، اعوان، پیر کانجن مغل، دھنیال، گوجر، منہاس، راجپوت، بھٹی اور سید بھی آباد ہیں۔ سید پور سے منسلک قدیمی آبادیوں میں چک، بیچو، میرہ، ٹیمبا، بڑ، جنڈالہ ہیلاں شامل تھے۔ جس وقت یہاں وفاقی دارالحکومت بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہاں کے لوگوں نے اپنی زیر کاشت زمینیں دینے سے لیت و لعل سے کام لیا۔ لیکن اس وقت حکومت نے ان سے یہ زمینیں اونے پونے خرید لیں۔
’’سی ڈی اے میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے‘‘
سی ڈی اے کے ذرائع کے مطابق ’’یہاں بڑی تعداد میں زمینیں مہاجرین کو الاٹ ہوئیں۔ جن پر قبضہ کیا گیا اور ان پر بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرائی گئیں۔ آج بھی کافی تعداد میں مہاجرین کی زمینیں سی ڈی اے کے کاغذات میں موجود ہیں۔ جن کا کوئی والی وارث نہیں۔ اسلام آباد میں قبضہ مافیا بہت طاقتور ہے اور اس میں بڑے بڑے سیاستدانوں کا نام آتا ہے۔ نوے کی دہائی تک یہاں زمینوں کے ریٹ مناسب تھے۔ جو عام آدمی کی پہنچ میں رہے۔ لیکن 2005ء میں جب پراپرٹی کو بوسٹ ملا تو یک لخت لاکھ والی زمین پچاس لاکھ تک جا پہنچی اور اب صورتحال یہ ہے کہ وہی لاکھ روپے فی کنال زمین پانچ کروڑ سے زائد پربھی نہیں ملتی‘‘۔
2019ء تک اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے مطابق سی ڈی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے مطابق 600 فٹ کشادہ ایوینو اور خیابان اسلام آباد کے ہر سکیٹر کے اردگرد دیے گئے تھے۔ اور ان سیکٹرز کے مرکز کے اردگرد 150 فٹ چوڑی سڑکیں دی گئیں۔ لیکن منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث مالی مسائل حائل رہے اور سی ڈی اے 11 ویں سیریز تک زمین ڈویلپ اور ایکوائر کرسکا۔ چنانچہ اس منصوبہ بندی پر کامل عمل درآمد نہ ہو سکا۔ جی 12 اور ایف 12 کا گزشتہ لگ بھگ 40 برس ہوئے ایوارڈ ہو چکا ہے۔ لیکن سی ڈی اے ابھی تک مکمل زمین پر قبضہ حاصل نہیں کرسکی۔ جس کی اہم ترین وجہ زمینوں کی قیمت کے وہ ریٹ ہیں۔ جو سی ڈی اے مالکان کو دے رہی ہے۔ یہ ریٹ مالکان کے لیے قابل قبول نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مالکان سی ڈی اے کے خلاف عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔ 2009ء سے ایسا ہی ایک کیس’ کری ماڈل ویلج‘ ہے۔ جو عدالت میں زیر سماعت ہے اور لاکھوں لوگوں کو پلاٹ ایوارڈ ہو چکے ہیں۔ جن پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ’کری روڈ‘ پر واقع ایک معروف ترین پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹی ہے۔ جو اس کری ماڈل ویلج کے پیچھے ڈویلپ ہو رہی تھی ( اب وہ مکمل ہوچکی ہے)۔ جو پلاٹ متاثرین کے راہ میں حائل ہے۔ اس کیس میں طارق فضل چوہدری کا نام بھی لیا جاتا ہے کہ وہ بھی ان متاثرین کے پیچھے ہیں۔ بات جو بھی ہو۔ سی ڈی اے میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے‘‘۔