نواز طاہر :
تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ میں فائرنگ کے ایک ملزم نوید کے وکیل نے سارے واقعے کو ڈرامہ قرار دے دیا ہے اور جے آئی ٹی کی تحقیقات مسترد کر دی ہے۔ میاں دائود ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس ڈرامے کے محرکات سیاسی تھے۔ عمران خان پر گولی ان کے گارڈ نے چلائی تھی۔ عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ یوں عمران خان کے زخمی ہونے اور ایک کارکن کی ہلاکت کی تفتیش ایک بار پھر سوالیہ نشان بن گئی۔ جبکہ ’’زخمی‘‘ عمران خان کے خلاف ہی قانونی کارروائی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران وزیرآباد میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک کارکن معظم گوندل جاں بحق اور عمران خان زخمی ہوگئے تھے۔ جبکہ جلسے میں فائرنگ کرنے والے نواحی علاقے کے ملزم نوید کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ عمران خان کو ابتدائی مرہم پٹی کے بعد شوکت خانم کینسر اسپتال میں منتقل کردیا گیا تھا۔ جہاں کچھ روز داخل رہنے کے بعد وہ اپنے آبائی گھر زمان پارک منتقل ہو گئے۔ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کے سوا وہ مسلسل اپنے ڈرائینگ روم تک محدود ہیں۔
اس واقعے کے فوری بعد ملزم نوید کا ویڈیو بیان سامنے آیا تھا کہ اس نے عمران خان کو اسلام کے منافی خیالات پر گولی ماری۔ اسی دوران پی ٹی آئی کی جانب سے ایک سے زائد حملہ آوروں کی نشاندہی بھی کی گئی۔ وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا تھا کہ وہ اس واقعے کے بارے میں اطلاعات پہلے ہی شیئر کرچکے تھے اور مزید اطلاعات بھی ہیں۔ لیکن نہ تو پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اپنی جماعت کے اس اہم کارکن سے ملاقات کی اور نہ اس واقعے کی تحقیقات کرنے والوں سے ابطہ کیا۔ بلکہ اس واقعے کی تحقیقات کیلئے بار بار جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تبدیل کی جاتی رہی۔ جبکہ اس ٹیم میں وفاقی ادارے کی نمائندگی سے بھی گریز کیا گیا۔
مقتول معظم گوندل کو تحریکِ انصاف کی جانب سے پچاس لاکھ روپے اور اتنی ہی مالی معاونت پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی جانب سے کی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد جائے حادثہ کی رپورٹنگ کرنے والے میڈیا کارکنوں کی جانب سے متعدد ویڈیو فوٹیج شیئرز کی گئیں اور واضح کیا گیا کہ عمران خان کے ٹرک پر موجود محافظوں کی جانب سے بھی فائرنگ کی گئی۔ لیکن اس کی نفی کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما عمر سرفراز چیمہ، فواد چوہدری اور مسرت جمشید چیمہ نے بدھ کو ڈایکریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنز پنجاب کے میڈیا ہال میں پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والی گولیوں اور ان کے خولوں میں ایسا کوئی خول یا گولی کی باقیات برآمد نہیں ہوئیں۔ جو عمران خان کے محافظوں نے چلائی ہو۔
فارنسک رپورٹ کے مطابق ان محافظوں کے پاس موجود ہتھیاروں سے کوئی ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی۔ اس سے پہلے مقتول معظم کی ہلاکت کے شواہد کی فارنسک رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ گولی اس کے سر کے پیچھے لگی اور اگلے حصے سے نکل گئی اور یہ گولی اونچائی سے چلائی گئی تھی۔ جبکہ ملزم نوید زمین پر کھڑا فائرنگ کرتے دیکھا گیا۔ جسے اس مقدمہ قتل میں ملوث کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس سے پہلے پی ٹی آئی نے ناپسندیدہ صحافی پریس کانفرنس سے اٹھا دیئے تھے۔
یہ تضادات سامنے آنے کے بعد ملزم نوید کے وکیل میاں دائود نے تفتیشی ٹیم کی اب تک کی تحقیقات کو مسترد کر دیا ہے اور تفتیشی ٹیم کے ساتھ ساتھ تحریکِ انصاف کے موقف کو بھی چیلنج کردیا ہے۔ جبکہ فائرنگ کو محض ڈرامہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے معظم گوندل کی ہلاکت کے معاملے میں عمران خان اور فائرنگ کرنے والے ان کے محافظ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ میاں دائود ایڈووکیٹ کے مطابق پوری دنیا نے دیکھا کہ جب ملزم نوید فائرنگ کی کوشش کرتا ہے تو پی ٹی آئی کارکن اسے پکڑ لیتے ہیں۔ یہ شہادت موجود سب کے پاس ہیں۔ لیکن جے آئی ٹی کے پاس نہیں۔
اگر جے آئی ٹی درست اور دیانتدارانہ تفتیش کرے تو واضح ہوجائے گا کہ عمران خان کا گارڈ مجرم ہے۔ لیکن جے آئی ٹی نے عمران خان کے گارڈ کو بچالیا اور اسی لئے ساری صورتحال بدل دی گئی اور عمران خان کی ملی بھگت سے کیس کا رخ بھی تبدیل کر دیا گیا۔ میاں دائود ایڈووکیٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے قائدین کے اپنے بیانات میں واضح تضادات ہیں۔ جنہیں شاملِ تفتیش نہیں کیا گیا۔ ان میں سینیٹر اعجاز چودھری سرِ فہرست ہیں۔ جنہوں نے وقوعے سے پہلے ہی حتمی مقام کی نشاندہی کر دی تھی۔ واقعہ بھی اسی جگہ ہوا جس کی اعجاز چودھری نے نشاندہی کی۔ لیکن اعجاز چوہدری کو شاملِ تفتیش نہیں کیا گیا۔ بلکہ اعجاز چوہدری کے ٹویٹ سے لگتا ہے کہ یہ پلانٹڈ وقوعہ ہے۔ جس کا مقصد لانگ مارچ میں جان ڈالنا تھا۔
مزید یہ کہ واقعے کے فوری بعد سندھ کے سابق گورنر عمران اسماعیل نے خود کہا تھا کہ گولیاں عمران خان کے کپڑوں کو چھو کر گئیں۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو چار اور کبھی کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو سات گولیاں لگی ہیں۔ درحقیت عمران خان کے حملے کا پورا ڈرامہ رچایا گیا اور عمران خان کو جو زخم آئے، وہ پی ٹی آئی نے خود لگائے۔ موقع سے شواہد ضائع کیے گئے۔ میاں دائود ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وزیرآباد میں قافلے پر فائرنگ پی ٹی آئی کا خود ڈیزائن کیا جانے والا ڈرامہ ہے۔ جس کے محرکات سیاسی ہیں۔
یہ جاننے کیلئے کہ کیا ایسے زخم بعد میں لگائے جاسکتے ہیں اور طبی اعتبار سے ایسا ممکن ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی نے کہا کہ وہ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ زخم از خود لگائے گئے یا نہیں۔ لیکن یہ ناممکن نہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ابتدائی دنوں میں کچھ تصاویر جو وائرل ہوئیں، جن میں ایسے خدشات اور زخموں کے بارے میں تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ مگر یہ تو سوشل میڈیا کی باتیں تھیں۔ جن کی صحت اور ساکھ پر تو وہ کوئی بات نہیں کرسکتے۔
ایک سوال پر ڈاکٹر اشرف کا کہنا تھا کہ ’’کچھ طے شدہ قانونی امور ہیں، جن کے مطابق اس حملے کے ہر زخمی کا میڈیکولیگل ہونا لازم تھا۔ ایسے معاملات میں ابتدائی مرہم پٹی و میڈیکولیگل بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اور جو کچھ ابھی تک میڈیا کے ذریعے سامنے لایا گیا۔ اس کے مطابق سارا علاج جن ڈاکٹر صاحبان نے یا کسی ایک ڈاکٹر نے کیا۔ ان کی حیثیت ذاتی ملازم کی سی ہے اور اس کی قانونی حیثیت، اہمیت اور ساکھ الگ ہے۔ طبی نکتہ نظر سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ٹشو متاثر ہوئے، پھٹ گئے تو اتنا وقت بحالی میں نہیں لگنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر گولی سے ہڈی بھی متاثر ہوئی ہے، جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے تو بھی اب تک درست ہونا چاہیے۔ ماسوائے ایسی حالت میں کہ گولی براہ راست جاکر ہڈی پر لگی ہو اور اس نے ہڈی کو توڑ دیا ہو۔ جہاں تک کسی کا خود زخم لگانا یا مہارت کے ساتھ زخم لگانا ہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔ تاہم جدید سائنسی دور میں ایسے زخم کی پرکھ ہوسکتی ہے‘‘۔