احمد خلیل جازم :
پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ ہفتے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ صرف اعلان ہی کی حد تک محدود رہا۔ کیوں کہ اس پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ کارکنان کو سڑکوں پر لانا تحریک انصاف کے لیے ممکن نہیں رہا۔
ذرائع اس کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک عمران خان کا زمان پارک تک محدود ہونا اور کارکنان سے ویڈیولنک سے خطاب کرنا بھی شامل ہے۔ کیوں کہ اکثر لوگ عمران خان کو جلسہ گاہ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ جب کہ تحریک انصاف کی قیادت میں عمران خان جیسا اور کوئی قد آور لیڈر موجود نہیں جو کرائوڈ میں تحرک پیدا کرسکے۔ جب کہ دوسری جانب پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت کا وزیراعلیٰ پنجاب پر اعتماد نہ کرنا، اس تحریک کی ناکامی کا سبب ثابت ہو رہا ہے۔ پنجاب سے اس احتجاجی کال پر کسی قسم کا مثبت ردعمل دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے لیڈران اپنے کارکنان کو متحرک کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے تحریک انصاف کے سینئر لیڈر اورجنرل سیکریٹری اسد عمر نے لاہور میں پارٹی عہدیداروں کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ یکم جنوری سے ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے کیے جائیں گے۔ ان نئے احتجاجی مظاہروں کی کال دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی لیڈر شپ کا کہنا تھا کہ 10 جنوری کے بعد عمران خان خود بھی ان مظاہروں کی قیادت کریں گے اور پارٹی کارکنان اپنے اپنے علاقوں میں مظاہرے جاری رکھیں گے۔ یکم جنوری کو اس حوالے سے ایک ریلی بھی نکالی گئی تھی، جس کی قیادت پی ٹی آئی پنجاب کی لیڈر یاسمین راشد نے کی تھی۔
تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہم بے شک ملک میں مہنگائی شدت اختیار کرچکی ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت کو اس کا احساس بھی ہے کہ یہ وہ وقت ہے کہ جب حکومت کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر لانا زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔ لیکن عمران خان کا جلسوں میں خود نہ جانا اس احتجاجی تحریک کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔
ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پارٹی کی سینئر لیڈر شپ میں تنازعات نے بھی اس احتجاجی تحریک کو نقصان پہنچایا ہے۔ بعض لیڈران پر عمران خان خود تشکیک میں ہیں کہ ان کا جھکائو اسٹبلشمنٹ کی جانب ہے۔ جب کہ بعض لیڈران کا پنجاب میں ق لیگ کے وزیراعلیٰ پر تحفظات نے بھی احتجاجی ریلیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کی لیڈر شپ پر عمران خان کو یہ شبہات ہیں کہ وہ پارٹی کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ ان میں ایک اہم ترین سینئر لیڈر پر زیادہ شک کیا جارہا ہے، جس کے بارے پارٹی میں یہ سوچ بھی بڑھ رہی ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر عمران خان کو نااہل کراکے خود پارٹی کی قیادت سنبھالنا چاہتے ہیں۔ جب کہ پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت میں سے میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال اور اعجاز چوہدری، ق لیگ پر تحفظات میں پیش پیش ہیں۔
دوسری جانب پنجاب میں عدم اعتماد کے ووٹ کی وجہ سے بھی پرویز الہٰی پر اعتماد نہیں کیا جارہا۔ اعجاز چوہدری تو کھل کر عمران خان کو کہہ چکے ہیں کہ پرویز الٰہی تحریک انصاف کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں، جس کی وجہ سے عمران خان نے بھی گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے ایک اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب پر بے اعتمادی کا اظہار کیا تھا۔ مہنگائی کے خلاف اعلان کے باوجود احتجاجی تحریک کا نہ چلنا صرف پنجاب کی سیاسی صورت حال پر بھی منتج ہورہا ہے۔ کیوں کہ پرویزا لٰہی اس حوالے سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان احتجاجی جلسوں کی حفاظت پر مامور کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ صرف پرویز الٰہی پر ہی عدم اعتماد کا اظہار کررہی ہے، بلکہ یہ کام عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ کیوں کہ پی ٹی آئی کی اہم ترین قیادت جو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی امیدوار تھی، انہیں بائی پاس کرکے عثمان بزدار کو مسلط کیا گیا تھا۔
اس وقت بھی تحریک انصاف کے کارکنان کے کام نہیں ہورہے تھے اور اب تو کھل کر یہ کہا جارہا ہے کہ پرویز الٰہی صرف گجرات کے لیے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں او وہ تحریک انصاف پنجاب کی قیادت کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ گزشتہ دنوں پرویز الٰہی نے بھی پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت پر کھل کر تنقید کی تھی کہ وہ اپنی زبانوں کو لگام دیں۔ دراصل عمران خان اور دیگر قیادت جس طرح اسٹبلشمنٹ پر تنقید کررہے ہیں وہ پرویز الٰہی کو گراں گزرتی ہے اور اختلاف کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ اب چونکہ عمران خان خود پنجاب میں موجود ہیں اور حکومت بھی پنجاب کی ہے، لیکن پنجاب کی قیادت لوگوں کو سڑکوں پر اسی خوف سے نہیں لارہی کہ پنجاب کی انتظامیہ ان کے ساتھ مخلص نہیں۔ جب کہ بعض ارکین پنجاب اسمبلی تحریک انصاف سے نکلنے کو پر تول رہے ہیں اور وہ احتجاجی سیاست میں بالکل دلچسپی نہیں لے رہے۔
ذرائع کے مطابق خیبر پختون میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے، وہاں سے بھی لوگوں کو سڑکوں پر لانا مشکل امر ہوگیا ہے۔ کیوں کہ وہاں جاری دہشت گردی نے صوبے کے عوام پر خاصے برے اثرات مرتب کیے ہیں اور لوگ اس کا ذمہ دار موجودہ صوبائی حکومت کو سمجھتے ہیں کہ ایک جانب خیبر پختون کے لوگ مر رہے ہیں، لیکن پی ٹی آئی کی اہم ترین قیادت پنجاب میں زمان پارک بیٹھی ہوئی ہے۔
خیبر پختون کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کا اس وقت علاقوں سے غیر حاضر رہنا بھی لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔ پنجاب سے ذرائع ق لیگ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور ق لیگ کی لو سٹوری اپنے خاتمے کے قریب ہے۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ جس طرح ق لیگ کی حکومت پر تنقید کررہی ہے، اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد پرویز الٰہی تحریک انصاف سے راہیں جدا کرلیں گے۔ اس سوال پر کہ راہیں جدا کرکے کیا کریں گے؟ تو ان ذرائع کا کہنا تھا کہ، ق لیگ کے پاس بہت سارے آپشن موجود ہیں۔ ان کی دس سیٹیں پنجاب میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ پرویز الٰہی جس طرح تحریک انصاف سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، دوسری طرف سے اسی طرح کے فوائد اٹھانا ان کے لیے مشکل امر نہیں ۔ جب کہ پی پی پی کی قیادت پہلے ہی پرویز الٰہی سے رابطے میں ہے۔ اور یہ رابطے چوہدری شجاعت کے توسط سے مونس الٰہی کی اہلیہ کے تھرو ہورہے ہیں۔ اندرون خانہ ق لیگ ایک مرتبہ پھر متحد ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور شاید بہت جلداس حوالے سے آپ کو بہت کچھ تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے۔