ندیم محمود :
جمائما خان نے بطور شریک حیات عمران خان پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی اور وہ کپتان کی لاابالی اور رنگین زندگی کو ایک ضابطے میں لے آئی تھیں۔ حتیٰ کہ سیاست اور بیوی بچوں کو وقت دینے کا باقاعدہ ٹائم ٹیبل مقرر تھا۔ تاہم دو ہزار چار میں ہونے والی طلاق کے بعد سب کچھ بدل گیا۔
واضح رہے کہ حال ہی میں عمران خان سے متعلق جو نازیبا آڈیولیکس ہوئی ہیں اور جن ویڈیوز کے مارکیٹ میں آنے کی خبریں گرم ہیں، ان میں سے بیشتر کا تعلق تقریباً اسی دور سے ہے، جو جمائما سے طلاق کے بعد عمران خان نے بطور ’’بیچلر ‘‘ گزارا۔
جمائما سے شادی کے بعد عمران خان کے شب و روز کے عینی شاہدین میں سے ایک اہم ساتھی بتاتے ہیں ’’عمران خان بڑی نظم کی زندگی گزار رہے تھے۔ سیاست صرف سہ پہر تین بجے سے شام سات بجے تک ہوتی تھی۔ یعنی ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کے لئے عمران خان کے پاس فقط چار گھنٹے ہوا کرتے تھے۔ اس دوران پارٹی دفتر میں رہنمائوں کے ساتھ مشاورت ہوتی ۔ ٹی وی چینلز کی تعداد بڑھتی جارہی تھی، لہٰذا ٹاک شوز میں بھی کپتان جانے لگے تھے۔ اسی طرح مہینے میں ایک دو بار پریس کانفرنس ہوجایاکرتی تھی۔ لیکن عمران خان کو ہر صورت سات بجے گھر واپس پہنچنا ہوتا تھا۔ باقی وقت بیوی بچوں کے لیے تھا۔ ان دنوں وہ جمائما کے ساتھ اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں ایک کرائے کے بنگلے میں رہائش پذیر تھے۔‘‘
قریبی ساتھی کہتے ہیں ’’گھر سے دفتر اور دفتر سے واپس گھر پہنچانے کے لئے انہیں پارٹی کا ایک عہدیدار اپنی کار میں پک کیا کرتا تھا۔ اگر عمران خان ذرا سا بھی لیٹ ہوجاتے، یعنی شام سات بجے سے اوپر ٹائم ہوجاتا تو جمائما کے ٹیلی فون آنا شروع ہوجایا کرتے تھے۔ ہر بار عمران خان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا۔ On my way (میں راستے میں ہوں) ۔ گھر پہنچ کر عمران خان کچھ وقت بیوی بچوں کے ساتھ گزارتے اور پھر بچوں کو کہانیاں سناکر سلانے کا مرحلہ آتا تھا۔ جمائما خان بچوں کے معاملے میں بہت حساس تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ بچوں کو باپ کی خصوصی توجہ درکار ہے۔
رات کو سونے سے پہلے یہ معمول تھا کہ عمران خان کتاب پکڑ کر بچوں کو انگریزی میں کہانیاں سناتے۔ جیسا کہ پاکستانی کلچر میں نانی اور دادیاں بچوں کو سونے سے پہلے پریوں کی کہانی سنایا کرتی تھیں۔ گو کہ اب یہ کلچر تقریباً دم توڑ چکا ہے۔‘‘ تاہم عمران خان کے قریبی ساتھی کے بقول بالخصوص انگریزوں کی ٹریڈیشنل فیمیلیز میں اب بھی یہ روایت باقی ہے۔ ان روایات میں سالگرہ کو کبھی مس نہ کرنا اور مدر ڈے یا فادر ڈے کے موقع پر والدین کو وش کرنا بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ جمائما کے ساتھ شادی سے عمران خان کے پہلے بیٹے سلمان عیسیٰ کی پیدائش انیس سو چھیانوے میں ہوئی جبکہ دوسرے بیٹے قاسم نے انیس سو ننانوے میں آنکھ کھولی۔
جمائما سے شادی کے بعد عمران خان کی معمولات زندگی سے واقف ایک اور قریبی ساتھی کہتے ہیں ’’پلے بوائے کے طور پر عمران خان کی زندگی کی اپنی ایک تاریخ ہے، اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ خود عمران خان بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن یہ درست ہے کہ جمائما، عمران خان کی زندگی کو ایک ضابطے میں لے آئی تھیں اور ان کی پلے بوائے والی شخصیت کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔
چار گھنٹے سیاسی سرگرمیوں میں صرف کرکے عمران خان زیادہ وقت گھر پر گزارا کرتے تھے، لہٰذا رنگین زندگی کے مواقع معدوم تھے۔ جز وقتی سیاست اور پھر واپس گھر آکر ورزش کرنا ، واک کرنا اور بچوں کے ساتھ کھیلنا اس وقت عمران خان کی کل کائنات تھی۔ تاہم اگر سیاسی مصروفیات کی وجہ سے کبھی اسلام آباد سے باہر جانا پڑتا تو ٹائم ٹیبل کچھ تبدیل ہوجاتا۔ اس کے لئے جمائما کی طرف سے خصوصی رعایت ملتی تھی۔ لیکن یہ ایک طرح سے ’’یوٹرپ‘‘ ہوا کرتے تھے کہ جائو اور آجائو۔ خاص طور پر دو ہزار دو کے عام انتخابات کے موقع پر انتخابی مہم کے سلسلے میں اکثر عمران خان کو میانوالی جانا پڑتا تھا۔ اس کے لیے عمران خان صبح گھر سے نکلتے اور عموماً رات گئے واپس اسلام آباد پہنچ جایا کرتے تھے۔
کبھی کبھار ایک رات گزار کر صبح گھر واپسی ہوتی۔ ان دنوں موبائل فون کے ٹاورز کا نیٹ ورک زیادہ وسیع نہیں تھا۔ لہٰذا ملک کے بیشتر مقامات پر سگنل نہیں آیا کرتے تھے۔ لہٰذا ایسے مقامات پر بھی ہر وقت رابطہ برقرار رکھنے کے لئے جمائما نے عمران خان کو تھورایا سیٹلائٹ فون دے رکھا تھا۔
جمائما گولڈ اسمتھ اور عمران خان کے مابین مئی دو ہزار پچانوے کو پیرس میں نکاح ہوا تھا۔ جون میں رچمنڈ رجسٹر آفس میں اس حوالے سے تقریب ہوئی۔ بعد ازاں جمائما اپنے شوہر کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئی تھیں، جہاں سے وہ اسلام آباد شفٹ ہوئے۔ بدقسمتی سے جون دو ہزار چار میں جوڑے کے مابین طلاق ہوگئی اور یوں عمران خان کی ایک ضابطے میں بندھی زندگی پھر آزادہوگئی۔
قریبی ساتھی کہتے ہیں ’’جمائما سے طلاق کے بعد ایک بار پھر عمران خان کی ’’بیچلر لائف‘‘ کا آغاز ہوا، جو ریحام خان سے دو ہزار چودہ میں شادی تک چلتا رہا۔ جمائما سے طلاق کے بعد عمران خان پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی جب چھٹیوں میں ان کے بیٹے سلیمان اور قاسم پاکستان آتے تو عمران خان اپنی بیشتر سیاسی سرگرمیاں ترک کردیا کرتے تھے۔ ان کا زیادہ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزرا کرتا تھا۔ حتیٰ کہ اس معاملے پر ایک بار ان کی پارٹی کے ایک اہم عہدیدار سے ناراضگی بھی ہوگئی۔
مذکورہ عہدیدار کا کہنا تھا کہ شادی کے بندھن کے دوران تو کپتان کی سیاسی سرگرمیاں محدود تھیں، لیکن اب جب چیئرمین کے بیٹے پاکستان آتے ہیں تو وہ پھر سیاست سمیت ہر چیز سے الگ ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں پارٹی کیسے چلے گی؟ یہ باتیں پارٹی کے ایک اور رہنما نے عمران خان کو جاکر من و ن بتا دیں۔ جس پر وہ مذکورہ عہدیدار سے ناراض ہوگئے۔ جبکہ پارٹی عہدیدار بھی اپنے موقف پر قائم تھا۔ بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعد عمران خان نے پارٹی عہدیدار کو منالیا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔‘‘
عمران خان کے ایک اور قریبی ساتھی نے بتایا کہ پھر چھٹیوں پر سلیمان اور قاسم کا آنا کم ہوتا گیا اور عمران خان کی آزادی بھی بڑھتی چلی گئی۔ وہ بتدریج اپنی پرانی زندگی کی طرف لوٹ رہے تھے۔ آڈیولیکس کا تعلق زیادہ تر انہی قصوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ بہت سی کہانیاں ابھی ان کہی ہیں۔ دو ہزار دو کے الیکشن میں عمران خان میانوالی سے قومی اسمبلی کی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور پورے پاکستان میں تحریک انصاف کی یہی واحد نشست تھی۔ دو ہزار دو کے الیکشن کے بعد وجود میںآنے والی قومی اسمبلی میں ہی عمران خان کی عائلہ ملک سے راہ و رسم ہوئی تھی۔
عائلہ ملک نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم سے دوہزار دو کی قومی اسمبلی میں پہنچی تھیں۔ تاہم اس وقت جمائما نے بطور شریک حیات کپتان پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی تو معاملہ اتنا آگے نہ بڑھ سکا تھا۔ طلاق کے بعد یہ رکاوٹ دور ہوگئی۔ پھر عائشہ گلالئی کا اسکینڈل سامنے آیا۔ عائشہ گلالئی نے عمران خان پر سنگین الزامات لگائے۔ تاہم اس معاملے سے آگاہ کپتان کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عائشہ گلالئی آدھا سچ بول رہی ہیں۔ وہ تصویر کے دونوں رخ بیان کرنے کے بجائے ایک ہی رخ میڈیا میں پیش کرتی چلی آئی ہیں۔ وہ اتنی معصوم نہیں جتنا ظاہر کر رہی ہیں۔
عائشہ گلالئی کو یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ عمران خان ان سے شادی کریں گے۔ یہ آسرا تو وہ ہر کسی کو دیتے تھے۔ گلالئی اپنے والد کو بھی ساتھ لے کر آیا کرتی تھیں۔ اس معاملے کو قریب سے دیکھنے والے عمران خان کے ایک سابق قریبی دوست کے بقول ’’دراصل یہ ایک فیملی آپریشن تھا جو ناکام ہوگیا۔‘‘