سید نبیل اختر:
پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے خلاف ضابطہ چیف ایگزیکٹو افسر فرمان اللہ زرکون اور ایڈہاک انتظامیہ کی غفلت سے منافع بخش انشورنس کمپنیوں نے حکومت کے 15 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد دبا رکھے ہیں۔ انتظامی غفلت کے نتیجے میں ایک برس کے دوران 3 ارب 72 کروڑ 87 لاکھ 12 ہزار 427 روپے کی وصولی نہیں کی جاسکی۔ آدم جی، الیانز، الفا، بیما پاکستان، ای ایف یو سمیت کراچی کی 17 انشورنس کمپنیوں نے 6 ارب روپے کی پی آر سی ایل کی ادائیگی نہیں کی۔ لاہور کی الفلاح سمیت 9 انشورنس کمپنیوں کے ایک ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔ ادارے میں کلیدی عہدوں پر کنٹریکٹ ملازمین تعینات اور من پسند شخص کو چیف فنانشل افسر بھرتی کرنے کیلئے دو مرتبہ اشتہار شائع کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان ری انشورنس کمپنی کی دو ہزار اکیس کی بیلنس شیٹ سے پتا چلا ہے کہ ادارے نے اندورن و بیرون ملک انشورنس کمپنیوں سے 30 ستمبر دو ہزار اکیس تک گیارہ ارب 47 کروڑ 73 لاکھ 42 ہزار 655 روپے کی وصولی کرنی تھی۔ جبکہ ایک برس بعد کی بلینس شیٹ میں اس رقم میں 3 ارب 72 کروڑ 87 لاکھ 12 ہزار 427 روپے کا اضافہ ہوگیا اور مجموعی طور پر یہ رقم 30 ستمبر 2022ء تک15 ارب 20 کروڑ 60 لاکھ 55 ہزار 82 روپے تک پہنچ گئی۔ بیلنس شیٹ میں یہ ہوشربا اضافے سامنے آنے پر ایڈہاک انتظامیہ کا پول کھل گیا۔ تاہم وزارت تجارت کے کرتا دھرتا حکومت کو نہ ملنے والی خطیر رقم کے قومی خزانے میں جمع نہ ہونے پر چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
’’امت‘‘ نے پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ سے کراچی کی انشورنس کمپنیوں کی تفصیلات حاصل کیں تو پتا چلا کہ کراچی کی 17 انشورنس کمپنیوں نے ادارے کے دسمبر 2022ء تک 6 ارب 19 کروڑ 33 لاکھ 38 ہزار 526 روپے ادا کرنے ہیں۔ ان میں آدم جی انشورنس کمپنی کے ایک ارب 67 کروڑ 90 لاکھ 94 ہزار 740 روپے، الیانز ای ایف یو ہیلتھ انشورنس لمیٹڈ کے 12 کروڑ 42 لاکھ 15 ہزار 371 روپے، الفا انشورنس کمپنی کے ایک کروڑ 41 لاکھ 49 ہزار گیارہ روپے، بیما پاکستان لمیٹڈ کمپنی کے 9 لاکھ 54 ہزار 393 روپے، سینچری انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے 20 کروڑ 48 لاکھ 18 ہزار 37 روپے،
ای ایف یو جنرل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے ایک ارب 3 کروڑ 84 لاکھ 60 ہزار 854 روپے، حبیب انشورنس کمپنی کے 24 کروڑ 24 لاکھ 8 ہزار 236 روپے، انٹرنیشنل جنرل انشورنس کمپنی کے 78 کروڑ 34 لاکھ 34 ہزار 326 روپے، پریمیئر انشورنس کمپنی کے 38 کروڑ 46 لاکھ 44 ہزار 904 روپے، ریلائنس انشورنس کمپنی کے16 کروڑ 83 لاکھ ایک ہزار 74 روپے، رب انشورنس بروکرز اینڈ ایڈوائزری کے ایک لاکھ 82 ہزار 375 روپے، شاہین انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے 2 کروڑ 6 لاکھ 99 ہزار 30 روپے، سندھ انشورنس لمیٹڈ کے 5 کروڑ 48 لاکھ 77 ہزار 832 روپے اور اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے 6 کروڑ 63 لاکھ 27 ہزار 461 روپے واجب الادا ہیں۔
لاہور کی نادہندہ 9 کمپنیوں کے حوالے سے معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک ارب 23 کروڑ 39 لاکھ 73 ہزار 163 روپے ادا کرنے ہیں۔ ان میں الفلاح انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے 29 کروڑ 84 لاکھ 25 ہزار 223 روپے، ایشین میچوئل کے 98 ہزار 619 روپے، عسکری جنرل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے 24 کروڑ 78 لاکھ 24 ہزار 663 روپے، اٹلس انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے 40 کروڑ 30 لاکھ 85 ہزار 978 روپے، کوآپریٹو انشورنس کمپنی کے 15 لاکھ 20 ہزار 646 روپے، پاکستان جنرل انشورنس کمپنی کے 2 کروڑ 92 لاکھ 46 ہزار 551 روپے، پاکستان میچوئل انشورنس کمپنی کے ایک لاکھ 37 ہزار 951 روپے، سیکیورٹی جنرل انشورنس کمپنی کے 23 کروڑ 46 لاکھ 83 ہزار 956 روپے اور یونیورسل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے ایک کروڑ 49 لاکھ 42 ہزار 576 روپے شامل ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات سے پتا چلا کہ فارن ریذیڈنٹ انشورنس کمپنیوں نے ایک کروڑ 30 لاکھ 32 ہزار 351 روپے پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ کو ادا نہیں کیے۔ ان کمپنیوں میں الائنس، اون انشورنس بروکرز پرائیویٹ لمیٹڈ، چب انشورنس پاکستان لمیٹڈ، کمرشل یونین، گرین شیلڈ انشورنس بروکرز، ناروچ یونین فائر انشورنس سوسائٹی اور فینکس شامل ہیں۔
موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر مذکورہ انشورنس کمپنیوں سے خطیر رقم کی وصولی کیلیے اقدام ناگزیر ہیں۔ تاہم وزارت تجارت نے پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے حوالے سے مکمل چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایک ایسے وفاقی ادارے میں کلیدی عہدوں پر اہم تعیناتیوں نے بھی کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ جبکہ بعض حلقے اربوں روپے کمانے والے ادارے میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
پی آر سی ایل کے موجودہ چیف ایگزیکٹو اور چیف فنانشل افسر کی تعیناتیاں مکمل غیر قانونی و خلاف ضابطہ ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ موجودہ سی ای او فرمان اللہ زرکون کو 2013ء میں نگراں حکومت کے دور میں بھرتی کیا گیا تھا۔ اس وقت کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست جمع کرائی۔ جس پر سپریم کورٹ نے نگراں حکومت کے دور میں کی جانے والی بھرتیوں، ترقیوں اور تقرریوں کو کالعدم اور غیر قانونی قرار دیا۔ اس حکم کے تحت فرمان اللہ زرکون سمیت دیگر کو برطرف ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ ان کے علاوہ ان 4 افسران کو 8 برسوں کے دوران ترقیاں دے کر اہم عہدوں سے نواز دیا گیا۔ مزید یہ کہ 2017ء میں فرمان اللہ زرکون کو غیر قانونی ٹھیکہ دینے کی انکوائری میں انہیں قصوروار بھی قرار دیا گیا اور انہیں سنشور لیٹر جاری کرنے یعنی شہر بدر کرنے کی سزا دی گئی اور لاہور تبادلہ کردیا گیا۔
معلوم ہوا کہ فرمان اللہ زرکون کے خلاف ایک غیر ملکی انشورنس کمپنی ایفرو ایشین نے سابق سی ای او عارف احمد کو خان شکایتی خط بھیجا۔ جس میں ٹھیکے میں کرپشن کے شواہد بھی فراہم کیے گئے۔ شکایتی خط کا نوٹس لیتے ہوئے 3 افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ان افسران میں چیف فنانشل افسر جمیل احمد، چیف انٹرنل آڈیٹر محمد خورشید اور کمپنی سیکریٹری شمس الدین شامل تھے۔ کمیٹی نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد ٹھیکے کو خلاف ضابطہ قرار دیا اور اپنی رپورٹ اعلیٰ حکام کو ارسال کردیں۔ 18 اگست 2017ء کو چیف ایگزیکٹو افسر عارف احمد خان نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر ایک آفس آرڈر جاری کیا۔ جس کے مطابق انکوائری رپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے چار افسران فرمان اللہ زرکون (جی ایم بزنس ڈولپمنٹ)، جنید موتی (ایگزیکٹو ڈائریکٹر انڈر رائٹنگ)، عبدالرشید جویو (ڈپٹی منیجر) اور معظم علی (جونیئر افسر) کو قصور وار ٹہرایا گیا اور فرمان اللہ زرکون کا لاہور تبادلہ کردیا گیا۔
انکوائری کمیٹی کی سفارش پر فیصلہ کیا گیا کہ ٹینڈر کو دوبارہ کھولاجائے گا اور معیار کے مطابق دوبارہ سے بولی حاصل کی جائے گی۔ علاوہ ازیں مستقبل میں ٹھیکوں سے متعلق حکومتی رولز کو مد نظر رکھتے ہوئے ایس او پیز بنائی جائیں گی۔ تاہم وہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وہ اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ڈیپوٹیشن پر بلوچستان چلے گئے اور کچھ عرصہ وہاں گزار کر واپس کراچی آگئے۔ کراچی میں انہیں ایک بار پھر ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
واضح رہے کہ پی آر سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے انہیں شہر بدر کرنے کی سفارش کی تھی۔ جس پر عملدرآمد کردیا گیا تھا۔ تاہم ان کی دوبارہ تعیناتی کے فوری بعد انہیں قائمقام سی ای او کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا۔ قائمقام کے عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے سی ای او کی تعیناتی کا اشتہار دیا اور خود کو اگست 2022ء میں 3 سالہ کنٹریکٹ پر سی ای او تعینات کرالیا۔ اپنی خلاف ضابطہ سربراہی کو برقرار رکھنے اور مالی بے ضابطگیوں کیلئے گلستان جوہرکے رہائشی سید عامر نامی شخص کو ادارے کا چیف فنانشل افسر بھرتی کرلیا۔ اس بھرتی میں بھی ضابطے کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ چیف فنانشل افسر سید عامر کی تعیناتی بھی خلاف ضابطہ ہے۔ فرمان اللہ زرکون کو من پسند چیف فنانشل افسر کی تعیناتی کیلئے دو مرتبہ اخبار میں اشتہار شائع کرانا پڑا۔
ذرائع نے بتایاکہ پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ نے چیف فنانشل افسر کی بھرتی کیلئے دسمبر 2021ء میں اشتہار دیا۔ جس میں تعلیمی قابلیت سے متعلق کہا گیا کہ درخواست گزار آڈٹ یا اکاؤنٹنگ کے شعبوں یا 5 ارب روپے یا زائد کے کل اثاثہ جات کی حامل ایک کمپنی کے مالیاتی انتظام یا کارپوریٹ امور کی تعمیل میں کم ازکم 5 برسوں کے انتظامی تجربہ کے ساتھ پروفیشنل اکاؤنٹنٹس کے ایک تسلیم شدہ ادارے کا رکن ہو۔ آڈٹ یا اکاؤنٹنگ کے شعبوں یا ایک کمپنی کے مالیاتی انتظام یا کارپوریٹ امور کی تعمیل میں کم از کم 10 برس کے انتظامی تجربہ کے ساتھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے تسلیم شدہ ایک یونیورسٹی سے فنانس میں ماسٹر ڈگری کا حامل ہو۔ آئی ایف آر آئی ایس آئی سیون کی تعمیل کی گہری واقفیت ہو۔ انشورنس انڈسٹری میں بطور کلیدی (آڈٹ یا اکاؤنٹنگ سیکٹر اور پبلک سیکٹر ورکنگ اسٹرکچر کی پیشہ ورانہ مہارت میں تجربہ ہو۔ پبلک پروکیورمنٹ کی معلومات اور پی پی آر اے رولز و ریگولیشن میں مہارت ہو۔
ای آر پی انوائرمنٹ کا ایکسپوزر کا حامل ہو، جس کی زیادہ سے زیادہ عمر 50 برس ہو۔ تاہم کمپنی کے خلاف ضابطہ سی ای او فرمان اللہ زرکون نے اپنے من پسند افسر سید عامر حامل شناختی کارڈ نمبر 42201-8442123-7 ساکن مکان نمبر 199/13، بلاک نمبر 14 گلستان جوہر کراچی کو 20 جنوری 2022ء کو بھرتی کیا۔ سید عامر کی تنخواہ ساڑھے 7 لاکھ روپے مقرر کی گئی۔ جس میں بنیادی تنخواہ تین لاکھ روپے، الاؤنسز کی مد میں دی جانے والی رقم ساڑھے تین لاکھ اور کار الاؤنس کی مد میں ایک لاکھ روپے مقرر کی گئی۔ سید عامر کیلئے ہر تین ماہ پر ایک بنیادی تنخواہ بھی دینے سے متعلق کنٹریکٹ سائن کرایا گیا۔ مستقل ملازم کی طرح گروپ انشورنس کی ادائیگی بھی کی جائے گی۔ جبکہ تنخواہ میں سالانہ اضافہ، ٹریول الاؤنس، میڈیکل کی سہولت، ممبر شپ کی ری امبرسمنٹ فیس کی ادائیگی، لیو انکیشمنٹ بھی کی جائے گی۔
50 برس کے اشتہار پر بھرتی ہونے والے سید عامر کی بھرتی کے وقت عمر 52 برس تھی۔ جس کے خلاف ادارے میں موجود اہل افسران نے شور مچایا تو فرمان اللہ زرکون نے 9 فروری 2022ء کو اسامیوں کا اعلان کے عنوان سے چیف فنانشل افسر اور چیف انٹرنل آڈیٹر کا اشتہار شائع کیا۔ جس میں چیف فنانشل افسر کی عمر 55 برس کردی گئی۔ یہ اشتہار محض کاغذی کارروائی پوری کرنے کیلئے کی گئی اور سید عامر کو جنوری 2022ء سے ہی بھرتی کرلیا گیا اور تمام مراعات جنوری سے ہی بحال کردی گئیں۔ جبکہ بھرتی کا دوسرا اشتہار فروری 2022ء میں شائع کیا گیا۔ ’’امت‘‘ نے مذکورہ معاملے پر مؤقف کیلئے فرمان اللہ زرکون سے بات کرنے کی کوشش کی۔ تاہم انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔ ’’امت‘‘ نے سرکاری دستاویزات میں موجود چیف فنانشل افسر کے رابطہ نمبر پر فون کرکے مؤقف لینے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا فون بند ملا۔