امت رپورٹ :
سعودی عرب نے کہا کہ وہ پاکستان کو گیارہ ارب ڈالر تک فراہم کرنے پرغور کر رہا ہے۔ جو ڈیفالٹ کا سامنا کرنے والے ملک کے لیے ممکنہ لائف لائن ہے۔ جبکہ متحدہ عرب امارات اور قطر نے بھی حالیہ مہینوں میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کو مدد کی پیشکش کر سکتے ہیں۔ جس میں خلیجی ممالک سے ممکنہ قرضے اور سرمایہ کاری اب ریاض کے تازہ ترین اعلان کے بعد کم از کم بائیس ارب ڈالر بنتی ہے ۔
معروف انگریزی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی یہ حمایت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تعطل کا شکار مذاکرات کے لیے پاکستان کے ہاتھ مضبوط کر سکتی ہے۔ اسلام آباد اب تک معاہدے کے لیے آئی ایم ایف کی ان کڑی شرائط ماننے کو تیار نہیں ہے۔ جس میں بجلی اور پٹرول کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہے۔
ملک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ تاہم مالیاتی منڈیوں کو امید ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو دنوں میں دوبارہ پٹری پر لایا جا سکتا ہے۔
مالیاتی تجزیہ کاروں کے اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس صرف چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کے سرکاری غیر ملکی کرنسی ذخائر ہیں۔ مرکزی بینک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں، اس سال جنوری اور فروری میں اسے چھ اعشاریہ چار ارب ڈالر کا قرض ادا کرنا ہے۔ اسی طرح دسمبر تک اسے مزید بارہ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔
سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے اپنے سرمایہ کاری کے منصوبوں کو ایک ارب ڈالر سے بڑھا کر دس ارب ڈالر اور پاکستان کے مرکزی بینک کے ساتھ اپنے قرضے کے ذخائر کو موجودہ 3 ارب ڈالر سے بڑھا کر 5 ارب ڈالر کرنے پر کام کرے گا۔ رپورٹ کے مطابق یہ اشارے پاکستان اور اس کے عوام کے لئے سعودی معاونت کے ارادے کی تصدیق کرتے ہیں۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ یہ خبر پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سعودی عرب کے دورے کے بعد سامنے آئی۔ جہاں انہوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ ریاض نے بتایا کہ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور ان کو فروغ دینے کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔
پاکستان سعودی عرب کا قریبی پارٹنر ہے۔ جس میں مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے فوجی فراہم کرنا اور سعودی فوجیوں کو تربیت دینا شامل ہے۔ سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی کام کرتے ہیں۔
پاکستان نے حالیہ مہینوں میں خلیج اور چین میں اپنے دیگر قریبی اتحادیوں پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ کیونکہ وہ گزشتہ دہائی کے دوران لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف یو اے ای کے دورے پر ہیں۔ اسلام آباد کو امید ہے کہ وہ اپنے میزبان سے جلد ہی 2 ارب ڈالر کا قرض لے لے گا۔ گزشتہ سال متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں تقریباً 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔ اب قطر نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
خلیجی ممالک کے سرمایہ کاری سے متعلق کسی بھی منصوبے نے اب تک عملی جامہ نہیں پہنا ہے۔ جس میں زیادہ تر ممکنہ طور پر سرکاری اداروں کی خریداری شامل ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان میں ایک بڑی آئل ریفائنری بنانے کا آئیڈیا بھی پیش کیا ہے۔
دوسری جانب چین نے پاکستان کے مرکزی بینک کو 4 ارب ڈالر قرضہ فراہم کیا ہے۔ پاکستان کے قرضوں کا تقریباً ایک تہائی حصہ بیجنگ کے پاس ہے۔ حالیہ برسوں میں، بیجنگ نے ملک میں اربوں ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا پروگرام انجام دیا ہے۔ جو اس کے عالمی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ ہے۔ ان بڑے تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے چین اپنا اثر ورسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
پاکستان کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ایک مقامی مالیاتی گروپ کے سربراہ، سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ خلیجی ممالک کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کے چند تیار مواقع موجود ہیں۔ جس کے لئے نقدی کی فوری ضرورت ہے۔ سمیع اللہ طارق کے بقول سعودی اعلان کے باوجود پاکستان کو اب بھی آئی ایم ایف کی ضرورت ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے مرکزی بینک میں صرف 2 بلین ڈالر کی اضافی رقم ممکنہ طور پر فوری مزید کیش کی ضرورت عیاں کرتی ہے۔ ماضی میں خلیجی ممالک نے پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے سے قرضوں کو مشروط کر رکھا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ آیا اس کا اطلاق سعودی عرب کے تازہ اعلان پر بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے اس پر فوری کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے بقول پاکستان آئی ایم ایف کی سخت قرض کی شرائط کو روکنے کی امید کر رہا ہے۔ انہیں اس سال کے آخر میں انتخابات کا سامنا ہے اور وہ اپنے عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنا نہیں چاہتے۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے اس بات کا اشارہ نہیں کیا ہے کہ آیا وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ تعطل میں رہ کر شرائط پر انحصار کرے گا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان پیر کو بات چیت ہوئی۔ لیکن کسی پیش رفت کا اعلان نہیں ہوا۔
حکومت نے ڈالر بچانے کے لیے بہت سی درآمدات روک دی ہیں۔ جب کہ کچھ فیکٹریوں نے پیداوار روک دی ہے۔ کیونکہ وہ پرزے یا مشینری درآمد نہیں کر سکتیں۔
اس دوران روپے کی باضابطہ شرح تبادلہ اور مارکیٹ میں دستیاب اصل شرح کے درمیان دس فیصد سے زیادہ کا فرق آیا ہے۔ اس فرق نے بینکنگ چینلز کے بجائے دیگر ذرائع سے پیسے کی ترسیل کا راستہ کھول دیا ہے۔ کیونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اور دوسرے لوگ جو پیسے گھر بھیج رہے ہیں۔ وہ بہتر، غیر سرکاری شرح مبادلہ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اگلے سال یا اس کے کچھ عرصہ بعد ڈیفالٹ کا خطرہ ہے۔ قرض کی ری اسٹریچرنگ، کچھ قرضوں کی معافی اور کچھ ری شیڈولنگ، قرضوں کے بحران سے نکلنے کا راستہ فراہم کرسکتا ہے ۔
اخبار آخر میں لکھتا ہے، پاکستان کے لیے جنیوا میں فنڈریزنگ تقریب سے ایک اچھی خبر تھی۔ جس سے ملک کو گزشتہ موسم گرما میں آنے والے سیلاب سے بحالی میں مدد ملے گی۔ پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ اعداد و شمار کے مطابق، کثیر جہتی قرض دہندگان جیسے اسلامی ترقیاتی بینک، تجارتی بلاکس، یورپی یونین، چین اور امریکا سمیت دیگر ممالک نے تعمیر نو میں مدد کے لیے تقریباً 9 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔