نواز طاہر :
تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ گورنر کو وزیراعلیٰ کی طرف سے ایڈاوائس بھیج دی گئی ہے، اگلے 48 گھنٹوں میں صوبائی اسمبلی تحلیل ہوجائے گی۔ انہوں نے عمران خان اور پرویزالٰہی کے درمیان ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط کر دیے ہیں۔ اسی پیٹرن پر کے پی اسمبلی بھی تحلیل کی جائے گی۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی اتحاد نے بدھ کی رات ایوان میں درکار ایک سو چھیاسی اراکین کے نمبر پورے کر کے وزیر اعلیٰ کو اعتمادکا ووٹ دیدیا تھا۔ بعد ازاں گورنر کی طرف سے وکیل منصور اعوان کے ذریعے عدالت عالیہ کے بنچ کو بھی بتا دیا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لینے کا آئینی تقاضا پورا کردیا ہے اور اب وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفیائی کرنے کا حکم بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گورنر کی طرف سے ڈی نوٹی فکیشن کا مراسلہ بھی میڈیا کو جاری کردیا گیا۔
اس سے پہلے جب نصف شب کو وزیر اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لیا تھا تو بھی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فواد چودھری کی طرف سے واضح کیا گیا تھا کہ اسمبلی کسی وقت بھی توڑ دی جا ئے گی۔ لیکن وزیر اعلیٰ نے رات دو بجے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد جو اعلانات کیے۔
ان کے مطابق امکان پیدا ہوگیا تھا کہ شاید اسمبلی اگلے کچھ ماہ چلے گی اور رمضان انتخابی مہم کے بغیر گزرے گا۔ لیکن ساتھ ہی اراکین اسمبلی اور خود مسلم لیگ ’ق‘ کے اراکین نے تصدیق کی کہ حتمی فیصلہ عمران خان نے ہی کرنا ہے اور عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ’ق‘ کے اتحاد نے اسمبلی کی تحلیل کے اپنے پہلے سے کیے گئے فیصلے پر عملدرآمد کر دیا۔ لیکن گزشتہ روز رات ساڑھے آٹھ بجے تک گورنر ہائوس کی جانب سے یہ سمری موصول ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی تھی۔
البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر کی کچھ امور پر وکلا سے مشاورت ہوئی ہے اور گورنر آئینی تقاضے پورے کرنے کے خواہاں ہیں۔ بعد ازاں اسپیکر نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں رات ساڑھے سات بجے تک وزیر اعلیٰ کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کا کوئی نوٹس جمع نہیں ہوا ہے۔ جبکہ ایسا کرنے کیلئے اپوزیشن کے پاس اختیار موجود ہے۔ جس کیلئے انہیں ایک سو چھیاسی اراکین درکار ہیں اور جو ان کے پاس موجود نہیں۔ خواتین سمیت ہمارے پانچ اراکین منحرف ہوچکے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس تو یہ تعداد ثابت ہو چکی ہے۔ ان پانچ منحرف اراکین کے بارے میں پی ٹی آئی کے حلقوں میں شنید ہے کہ منحرف اراکین کیخلاف نااہلی کی کارروائی بھی شروع کی جارہی ہے۔ جن میںمومنہ وحید، خرم لغاری، فیصل فاروق چیمہ، دوست مزاری اور چوہدری مسعود شامل ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ ’ق‘ کے اراکین کے حوالے سے بھی مختلف ذرائع سے یہ موقف سامنے آیا تھا کہ اعتماد کا ووٹ اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر دیا گیا۔ لیکن ’ق‘ لیگ ہی کے ذرائع نے اس کی تردید کر دی تھی اور واضح کیا تھا کہ ہمارے اراکین اسمبلی پی ٹی آئی کے اتحاد کے فیصلے کے پابند اور چودھری پرویز الٰہی کی قیادت پر مکمل اعتماد اور یقین رکھتے ہیں۔ انہیں چوہدری پرویز الٰہی جہاں حکم دیں گے۔ وہ وہیں کھڑے ہوں گے۔ اسی دوران مسلم لیگ ’ن‘ کے ذرائع نے تصدیق کر دی تھی کہ وہ اسمبلی ٹوٹنے سے بچانے کیلیے عدم اعتماد کا نوٹس جمع نہیں کروارہے۔
پی ٹی آئی کے اعلان کے مطابق گورنر کو بھیجی جانے والی سمری پر عملدرآمد میں کوئی امر مانع نہیں رہا اور اب اسمبلی برقرار نہیں رہے گی۔ بلکہ صوبے میں عبوری سیٹ اپ کا مرحلہ شروع ہوگا۔ جس کیلئے فواد چودھری نے بتایا ہے کہ (آج) جمعہ تیرہ جنوی کو قائد حزبِ اختلاف کو مراسلہ لکھا جائے گا۔ تاکہ آئین کے تحت اتفاقِ رائے سے غیر جانبدار وزیر اعلیٰ کا تعین کیا جاسکے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہباز اس وقت پاکستان میں موجود نہیں۔
اس ضمن میں پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف دو تین روز تک انتظار کرنے کے بعد اگر حمزہ شہباز شریف کی طرف سے پوزیٹو جواب نہیں آتا تو یہ معاملہ اسپیکر کو ارسال کردیا جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی فیصلہ کرے گی۔ لیگی ذرائع کے مطابق پارلیمانی کمیٹی میں بھی وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاقِ رائے ہونے کا امکان کم ہے اور معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پی ٹی آئی پہلے ہی الیکشن کمیشن پر تحفظات کا اظہار کرتی ہے۔ دوسری جانب نون لیگ کے ذرائع کے مطابق عبوری سیٹ اپ میں نگران وزیراعلیٰ کیلیے پارٹی نے ناموں کا تعین تاحال نہیں کیا اور آج اس حوالے سے لندن میں بات ہوسکتی ہے۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ کا اعلان کرنے سے پہلے ہی اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا تھا۔ لیکن عبوری سیٹ اپ کیلئے نام نہیں بتائے تھے۔ یہ نام چوہدری پرویز الٰہی کی مشاورت سے میڈیا کے سامنے لائے جائیں گے۔