ندیم محمود
عمران خان اگرچہ آج مولانا فضل الرحمان کے کٹر حریف دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی دشمنی میں وہ اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ مولانا کو نامناسب القابات سے بھی پکارتے رہتے ہیں۔ لیکن کبھی عمران خان نے ان ہی مولانا کے پیچھے نیت باندھی تھی۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ عمران خان کے لئے صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) کے دروازے مولانا فضل الرحمان کی وجہ سے کھلے تھے۔
عمران خان اور مولانا فضل الرحمان کے مابین راز و نیاز کا سلسلہ مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا، تب جمعیت علمائے اسلام کے امیر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے سربراہ بھی تھے۔ دراصل افغانستان پر امریکی حملے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے متعلق صدر مشرف کی پالیسیوں کے رد عمل میں دو ہزار ایک میں سیاسی و مذہبی پارٹیوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل بنائی گئی تھی۔ جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام اس اتحاد کی نمایاں پارٹیاں تھیں۔
سن دو ہزار دو کے الیکشن کے بعد متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ دو ہزار تین اور دو ہزار چار کے درمیان ایم ایم اے نے صدر مشرف کے خلاف اپنی کمپین تیز کردی تھی۔ ایم ایم اے کا مطالبہ تھا کہ مشرف اپنی وردی اتاریں اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے باہر نکلیں۔ یہ دبائو اس قدر بڑھا کہ مشرف کو ایم ایم اے کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔
ان مذاکرات کے خفیہ اجلاسوں سے واقف پی ٹی آئی کے بانی رہنمائوں میں سے ایک اکبر ایس بابر بتاتے ہیں ’’ان دنوں مولانا فضل الرحمان اور عمران خان مشترکہ اپوزیشن کی میٹنگز میں بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ مولانا فضل الرحمان کی سیاست سے عمران خان بہت متاثر تھے۔ میٹنگز کے بعد وہ مجھے کہا کرتے کہ مولانا، پاکستان کے سب سے قدر آور سیاست دان ہیں۔ باقی سیاستدان ان کے سامنے بونے ہیں۔ یہ میٹنگز کمبائنڈ اپوزیشن کی ہوتی تھیں، جس میں نون لیگ و پیپلز پارٹی بھی شامل تھیں۔تاہم ان میٹنگز کے ساتھ ساتھ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے مولانا فضل الرحمان، مشرف سے بھی پس پردہ مذاکرات میں مصروف تھے۔ بیک گرائونڈ میں ہونے والی یہ بات چیت عوام کی نظروں سے تو اوجھل تھی۔ تاہم دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اس معاملے پر مولانا فضل الرحمان نے اعتماد میں لے رکھا تھا اور اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے بھی وہ آگاہ کرتے رہتے تھے۔ مولانا کھل کر بات کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہوتا تھا کہ وہ ایڈوانس میں بتا رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی بات چیت چل رہی ہے۔ اگر معاملات طے پاگئے تو ایم ایم اے مشرف کے ساتھ چلی جائے گی۔ تم (دیگر اپوزیشن پارٹیاں) اپنا بندوبست کرلینا۔ کمبائنڈ اپوزیشن کی ایک میٹنگ میں ایک روز مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ مشرف کے ساتھ ان کے مذاکرات طے پاگئے ہیں اور ایم ایم اے، وفاقی حکومت کا حصہ بننے جارہی ہے۔ یہ ایک پورا پیکج تھا، جس کے تحت ایم ایم اے کو وفاق میں کئی وزارتیں ملنی تھیں۔ جبکہ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کو اسپیکر قومی اسمبلی بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ میٹنگ میں جب مولانا فضل الرحمان نے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو میرے ساتھ بیٹھے عمران خان اٹھ کر مولانا فضل الرحمان کے پاس گئے اور ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر باقاعدہ منت سماجت شروع کردی کہ وہ یہ قدم نہ اٹھائیں، ہم تنہا رہ جائیں گے۔ عمران خان ، مولانا کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن مولانا ٹس سے مس نہ ہوئے۔ دراصل اس وقت عمران خان، مشرف کے خلاف ہوچکے تھے۔ کیونکہ ریفرنڈم اور امریکہ کے حق میں مشرف کی پالیسیوں کی حمایت کے بدلے بھی عمران خان کو ان کی خواہش کے مطابق وزارت عظمیٰ نہیں دی گئی تھی۔ لہٰذا مطلب نہ نکلنے پر اب وہ مشرف کے خلاف تھے اور چاہتے تھے کہ کوئی بھی اپوزیشن پارٹی، ڈکٹیٹر کا ساتھ نہ دے۔ لیکن مولانا نہیں مانے۔ یہ الگ بات ہے کہ آخری لمحات میں ایم ایم اے اور مشرف کی ڈیل ٹوٹ گئی۔ اس ڈیل کے ٹوٹنے کا سبب یہ تھا کہ اپنے وعدے کے باوجود مقررہ وقت پر مشرف وردی اتارنے سے مکر گئے تھے۔ مشرف نے ایم ایم اے کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ اکتیس دسمبر دو ہزار چار تک وردی اتار کر سویلین صدر بن جائیں گے۔ یہ اعلان انہوں نے باقاعدہ پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ لیکن پورے تین برس بعد دو ہزار سات میں جاکر مشرف وردی اتارنے پر مجبور ہوئے، جسے وہ اپنی کھال سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔‘‘
اس سے قبل ایک وقت ایسا بھی آیا جب عمران خان نے وزارت عظمیٰ کے امیدوار مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دیا۔ یاد رہے کہ دو ہزار دو کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنانے کے باوجود مشرف کی کنگ پارٹی کے امیدوار ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم منتخب ہوپائے تھے۔ ان کے مقابلے میں اپوزیشن کے امیدوار مولانا فضل الرحمان تھے۔ وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں ایک ایک ووٹ کی اہمیت تھی۔ عمران خان پر بڑا دبائو تھا کہ وہ مشرف کے امیدوار کو ووٹ ڈالیں۔ اکبر ایس بابر بتاتے ہیں ’’میرا کہنا تھا کہ ریفرنڈم میں مشرف کے دھوکے کے بعد اب ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے ہیں۔ میں نے عمران خان کو کہا کہ یہ تمہارا پہلا امتحان ہے۔ لہٰذا مشرف کے امیدوار جمالی کو ووٹ دینے کے بجائے وہ اپوزیشن کے امیدوار مولانا فضل الرحمان کو ووٹ ڈالیں۔ قصہ مختصر، عمران خان نے مولانا فضل الرحمان کو ہی ووٹ ڈالا۔ اس کے باوجود جمالی ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم بن گئے۔ اگلے روز عمران نے مجھے فون کرکے کہا کہ وہ ٹاک شو میں جارہے ہیں۔ دراصل ہر ٹاک شو سے پہلے میں عمران خان کی تیاری کرایا کرتا تھا۔ شام کو انہوں نے مجھے فون کرکے گھر بلالیا۔ جب میں اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں واقع عمران خان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو وہ بالائی منزل پر اپنے بیڈ روم سے ملحق لیونگ روم میں موجود تھے۔ اور فون پر کسی سے بات کر تے ہوئے مولانا کو ووٹ دینے سے متعلق اپنے فیصلے کا دفاع کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر فون رکھا اور بولے کہ تم نے میرے ساتھ یہ کیا کیا ہے؟ میرے سارے دوست مجھے فون کرکے شکایت کر رہے ہیں کہ تم نے ایک ’’ملا‘‘ کو ووٹ کیوں دیا؟ جس پر میرا کہنا تھا کہ تم نے افغانستان پر امریکی حملے اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں ووٹ ڈالا ہے۔ اس لئے پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہی بات ٹاک شو میں بھی کہنی ہے۔ پھر ہم دونوں حامد میر کے پروگرام ’’کیپیٹل ٹاک‘‘ میں ساتھ گئے۔ عمران خان نے یہ ساری باتیں ٹاک شو میں کردیں۔ واپسی میں عمران خان کو ڈراپ کرکے میں گھر چلا گیا۔ رات گئے مجھے عمران خان کا فون آیا۔ اکبر ، کمال ہوگیا ہے۔ مجھے سارے صوبہ سرحد (اس وقت تک خیبرپختونخوا نام نہیں رکھا گیا تھا) اور مدارس سے فون آرہے ہیں کہ اصل مومن تو آپ ہیں۔ ہم آپ کو یہودیوں کا ایجنٹ سمجھتے رہے۔ عمران بہت خوش تھے۔ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ مولانا فضل الرحمان ان کا شکریہ ادا کرنے آرہے ہیں۔ رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب مولانا فضل الرحمان اور مولانا عبدالغفور حیدری دونوں عمران خان کی رہائش گاہ پر پہنچے اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس وقت تک عمران خان کو صوبہ سرحد میں قبولیت نہیں ملی تھی۔ تاہم مولانا کو ووٹ دینے کے سبب عمران خان کو صوبہ سرحد میں ایسی پذیرائی ملی کہ وہ صوبے میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں مولانا فضل الرحمان کی حمایت کے بدلے عمران خان کے لئے خیبرپختونخوا کے دروازے کھلے۔ اس سے قبل عمران خان پر یہودیوں کے ایجنٹ ہونے کا خطرناک لیبل چسپاں تھا اور وہ اس ڈر سے خیبرپختونخوا جانے سے گریز کیا کرتے تھے کہ مبادا کوئی بنیاد پرست ان پر حملہ نہ کردے۔ تاہم مولانا کو ووٹ دینے کے بعد عمران خان کا صوبہ خیبرپختونخواہ میں آنا جانا آسان ہوگیا۔ اور ان کی پذیرائی بڑھتی چلی گئی۔ اب وہ اسی صوبے میں کھڑے ہوکر مولانا فضل الرحمان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ‘‘