نواز طاہر :
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران وزیراعلیٰ کے تقرر اور انتخابی حکمتِ عملی پر کام شروع ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی اتحاد نے انتخابی مہم بھی تیز کردی ہے۔ جبکہ پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین کے رابطے جاری ہیں۔ دوسری جانب سبکدوش وزیراعلیٰ کی فرائض کی انجام دہی جاری ہے اور ان کے سابق وزیروں اور مشیروں کی سرکاری مراعات بھی برقرار ہیں۔ جبکہ گورنر کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو وقتی طورپر فرائض کی انجام دہی جاری رکھنے یا نہ رکھنے پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے آئین کے آرٹیکل ایک سو بارہ کے تحت اسمبلی کی تحلیل کیلئے ایڈوائس بھیجی گئی تھی جس پر گورنر نے دستخط کرکے اسمبلی تحلیل نہیں کی تھی اور اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے پہلے اس کی تحلیل کے عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر صوبائی اسمبلی آئین کے تحت از خود تحلیل ہوگئی تھی۔
اسمبلی کی تحلیل کے بعد رات کو ہی گورنر کی طرف سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں سابق اسمبلی کے قائد ایوان چودری پرویز الٰہی اور قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز سے کہا گیا کہ اب جبکہ آئین کے آرٹیکل ایک سو بارہ کی ذیلی شق ایک کے تحت اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے اور آئین کے آرٹیکل دو سو چوبیس کی ذیلی شق ایک الف کے تحت نگران وزیراعلیٰ کا تقرر ہونا ہے، جس کیلئے وہ دونوں نگران وزیراعلیٰ کا نام سترہ جنوری کی رات دس بجے تک فراہم کردیں اور اس مقصد کیلئے گورنر کے ساتھ میٹنگ کے وقت سے بھی آگاہ کریں تاکہ وہ اس وقت اپنی دستیابی یقینی بنائیں۔
گورنر ہائوس کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اسمبلی کی تحلیل اور نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کیلئے مشاورتی مراسلے کے ماسوا گورنر ہائوس سے کوئی مراسلہ جاری نہیں کیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد آئین ہی کے تحت نوے روز کے اندر الیکشن ہونا ہیں۔ لیکن اتوار کو الیکشن کمیشن کی جانب سے اسمبلی کی تحلیل کے بعد نئے الیکشن سمیت کسی قسم کا کوئی مراسلہ جاری نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب اسمبلی ختم ہونے پر کابینہ بھی ختم ہوگئی ہے اور اس اسمبلی سے منتخب ہونے والا وزیر اعلیٰ بھی ختم ہوگیا۔ لیکن پرویز الٰہی اپنے طور پر بطور وزیر اعلیٰ برقرار ہیں۔ جبکہ اس ضمن میں کوئی سرکاری مراسلہ یا آرڈر موجود نہیں اور اس کی تصدیق محکمہ اطلاعات کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔ تاہم محکمہ اطلاعات کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سبکدوش نہیں ہوئے، وہ آئین کے تحت نیا وزیر اعلیٰ آنے تک فرائض کی انجام دہی جاری رکھیں گے۔
وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو گورنر کی طرف سے بحیثیت وزیر اعلیٰ کام جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا کوئی حکمنامہ سامنے نہیں آیا۔ لیکن چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ کے طور پر از خود ہی فرائض انجام دے رہے ہیں، جس پر تاحال گورنر کا کوئی اعتراض بھی سامنے نہیں آیا۔ آئین میں وزیر اعلیٰ کے سبکدوشی کے بعد کی صورتحال میں معاملات نمٹانے کیلئے وزیراعلیٰ کی حسبِ ضرورت خدمات کیلئے آئین کا آرٹیکل ایک سو تینتیس رہنمائی کرتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ گورنر چاہے تو سبکدوش وزیر اعلیٰ کو نیا وزیر اعلیٰ ( منتخب یا غیر منتخب) آنے تک بحیثیت وزیر اعلیٰ فرائض کی انجام دہی جاری رکھنے کیلئے کہہ سکتا ہے۔
جب اس ضمن میں قانونی حیثیت کے بارے میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ آئین میں لفظ ’اگر چاہے‘ کا لکھا جانے کا گورنر یقینی طور پر وزیراعلیٰ کو کام جاری رکھنے کا پابند ہے۔ یہ مینڈیٹری ہے کہ وزیر اعلیٰ کام جاری رکھیں گے۔
اس کے برعکس آئنی ماہر اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری وسیم ممتاز ملک کا کہنا ہے کہ، لفظ ’اگر چاہیے‘ کا واضح مطلب ہے کہ یہ گورنر کا صوبدیدی اختیار ہے، وہ پابند نہیں ہے۔ اب اگر گورنر نے کام جاری رکھنے کے مراسلہ یا آرڈر جاری نہیں کیا تو وزیراعلیٰ اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکتے اور اگر وزیر اعلیٰ نے اپنی حیثیت برقرارکھی ہے اور گورنر نے اعتراض نہیں کیا اور خاموشی اختیار کی ہوئی ہے تو اس اس خاموشی کا مطلب ’قبولیت‘ تصور کیا جائے گا۔ یعنی گورنر نے جس طرح وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی کی تحلیل کے عمل کو غیر جمہوری تصور کرکے دستخط نہیں کیے اور اسمبلی از خود تحلیل ہوگئی تو انہوں نے اپنی صوابدید پر بھی خاموشی رکھی ہے اور نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے مرحلے کے لئے فریقین کو مراسلہ لکھ دیا۔ وزیراعلیٰ کے کام جاری رکھنے پر گورنر کی طرف سے اعتراض نہ اٹھائے جانے کا واضح مطلب ہے کہ انہوں نے ایسا کرنے کی ہدایت بھی نہیں کی اور اعتراض بھی نہیں کیا۔ بلکہ خاموشی سے قبول کرلیا ہے۔ تاہم یہ درست بات ہے کہ ہر معاملے میں کلیئریٹی ہونا چاہے۔
دریں اثنا ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے واضح کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے الیکشن موجودہ مردم شماری اور الیکشن کمیشن کی اس وقت تک موجود ووٹر لسٹوں پر ہی ہوں گے ۔ اگر اس میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔
نگران وزیراعلیٰ کیلئے سابق اسمبلی کے قائدِ حزبِ اقتدار چودھری پرویز الٰہی اور قائد حزبِ اختلاف کی جانب سے یہ سطور لکھے جانے تک باضابہ طور پر نام تجویز نہیں کیے گئے۔ البتہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کے اتحاد کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کی طرف سے بھی کچھ نام سامنے لائے گئے ہیں۔ لیکن انہیں مشاورت میںتاحال حتمی تصور نہیں کیا جا رہا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے سابق بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کے نام سامنے لائے جانے کا امکان ہے جن میں پرویز مشرف حکومت کا حسہ رہنے والے بھی شامل ہیں ۔ ممکنہ طور پر دونوں اتحادوں کی طرف سے یہ نام کسی وقت بھی سامنے آسکتے ہیں۔ جبکہ پی ڈی ایم کی قائدین مسلسل رابطے میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت لاہورمیں موجود ہے اور لندن میں مقیم قیادت سے مشورہ کر رہی ہے اور دونوں نے جماعتوں نے اپنی تنظیموں اورکارکنوں کو انتخابی مہم شروع کرنے کیلیے بھی کہہ دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر شاہین کے مطابق قیادت نے اپنے کارکنوں کو رابطہ عوام مہم موثر بنانے کی ہدایت کی ہے اور پیپلز پارٹی کے کارکن بنیادی طور پر سیاسی کارکن ہی ہیں اور ہر وقت سیاسی عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔ اب ان کی توجہ انتخابی مہم پر مرکوز ہے۔ جبکہ مسلم لیگ کی قیادت اسے پہلے ہی عوامی رابطہ مہم شروع کرچکی ہے اور انتخابی مہم میں تیزی لانے کیلئے مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائززر مریم نواز کی وطن واپسی پر جلسوں کا شیڈول مرتب کیا جائے گا۔ ان دونوں جماعتوں کی حریف پاکستان تحریکِ انصاف نے اتوار کو بھی اپنی انتخابی مہم جاری رکھی ہے۔