محمد قاسم :
خیبر پختون میں سی این جی کی بندش نے پنجاب کی صنعت میں جان ڈال دی اور پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع سے ٹرانسپورٹرز نے سی این جی کیلیے پنجاب کا رخ کرنا شروع کر دیا ، جہاں مختلف سامان اور گاڑیوں کے ذریعے سواریاں لے جانے والے ٹرانسپورٹرز گیس بھروا کے لانے لگے ہیں۔
پشاورسمیت صوبے کے پانچ سو سے زائد سی این جی اسٹیشن بند ہونے سے ایک لاکھ 60 ہزار کارکن گھروں میں بیٹھ گئے ہیں اور سی این جی بند کرنے کے باوجود پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع کے صارفین تا حال لوڈشیڈنگ اور گیس کے کم پریشر کی شکایات کر رہے ہیں۔ جبکہ لوکل ٹرانسپورٹرز نے پٹرول بھروانے کے پیسے ڈبل کر کے لوگوں کی جیبوں سے نکالنا شروع کر دیئے ہیں اور زائد کرائے وصول کرنے کے باوجود صوبائی حکومت سمیت ضلعی انتظامیہ منظر سے غائب ہے۔
صوبائی حکومت اسمبلی تحلیل اور استعفوں کے چکر میں پڑ کر عوامی مسائل کو بھول گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق پشاورکے حاجی کیمپ سمیت مختلف بس اڈوں سے مسافروں کو پنجاب لے جانے والے اکثر ٹرانسپورٹروں نے سی این جی اسٹیشن صوبے بھر میں بند ہونے کے بعد موٹرو ے کے ذریعے پنجاب داخل ہونے اور جی ٹی روڈ کے ذریعے پشاور آنے کو معمول بنالیا ہے جس کی بڑی وجہ جی ٹی روڈ کے راستے سی این جی ٹینک بھروانے ہیں اور دونوں جانب سے کرائے بھی اضافی لئے جارہے ہیں۔ کیونکہ پشاور سے زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد گاڑیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ جبکہ پنجاب سے آنے والے مسافروں میں زیادہ کا تعلق پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع سے ہی ہوتا ہے، اسی لیے دونوں کو سی این جی اسٹیشنوں کی بندش کاکہہ کر ڈبل کرایہ بھی وصول کیا جارہا ہے۔
ٹرانسپورٹروں نے خیبرپختون میں سی این جی اسٹیشنوں کی بندش کے باعث پنجاب سے گاڑیوں کے ٹینک بھروانے کا پروگرام بنا لیا تھا اور اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ تاہم لوکل روٹس پر چلنے والی مسافر گاڑیوں کے مالکان اور خاص کر ڈرائیور تا حال اس صورتحال میں پریشانی کا شکار ہیں۔ لیکن پھر بھی زیادہ تر پرانسپورٹرز لوگوں کی جیبوں سے ہی پیسہ نکال رہے ہیں اور پٹرول کے نام پر ڈبل کرایہ وصول کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے تکرار کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں اور پشاور کے حاجی کیمپ اڈہ سے حیات آباد اور کارخانو تک جانے والی ٹیکسی گاڑیوں کا فی اسٹاپ کرایہ 100روپے کر دیاگیا ہے
یعنی اگر حاجی کیمپ سے ہشت نگری یا فردوس سٹاپ پر بھی اتریں گے تو 100روپے کرایہ لیا جائے گا۔ جبکہ پشاور صدر تک 200 اور صدر سے آگے یونیورسٹی اور بورڈ تک 300 جبکہ کارخانو اور حیات آباد تک 500 روپے تک بھی کرایہ وصولی جارہی ہے۔ لیکن اس تمام صورتحال میں صوبائی حکومت اور انتظامیہ بالکل خاموش ہے اور منظر سے غائب ہے اور اپنی تمام تر توانائیاں صوبائی اسمبلی تحلیل، استعفوں اور الیکشن پر صرف کر رہی ہیں۔
عوام کے مطابق اگر صوبائی حکومت تھوڑی سی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تو عوام کے مسائل اتنے زیادہ نہ ہوتے۔ اس حوالے سے آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن خیبر پختون کے چیئرمین فضل مقیم کا کہنا ہے کہ صوبے بھر میں 572 سی این جی سٹیشن ہیں، جن کے بند ہونے سے ان میں موجود ایک لاکھ 60 ہزار کارکن بھی گھر وں میں بیروزگار ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔
فضل مقیم نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ اس وقت پنجاب کے ساتھ خیبر پختون کے سرحدی علاقوں سے ٹرانسپورٹرز پنجاب میں داخل ہوکر گاڑیوں کے ٹینک بھروا رہے ہیں اور اپنا کام کررہے ہیں۔ تاہم صوبے کے اندر یہی گیس استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت سے اپیل کی کہ صوبے کی اپنی پیداوار کو صوبے کے استعمال میں لایا جائے نہ کہ صوبے کی پیدوار پنجاب کے سی این جی سٹیشن سے صوبے کے عوام کو دستیاب ہو۔
دوسری جانب پشاورسمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں سی این جی اسٹیشنوں کی بندش کو تقریباً 2 ہفتے ہونے کو ہیں۔ تاہم گھریلو صارفین بدستور سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کی شکایات کررہے ہیں۔ اس حوالے سے اندرون شہری علاقوں ہشت نگری، لاہوری، کریم پورہ، گھنٹہ گھر، قصہ خوانی، گلبہار، سکندر پورہ اور نشتر آباد کے مکینوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے فضول میں سی این جی اسٹیشنوں کو بند کیا ہے۔ کیونکہ اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ رہا اور بدستور سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ جاری ہے اور پریشر بھی انتہائی کم ہے۔ جبکہ گزشتہ کئی ماہ سے بدترین لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے باوجود صارفین کو ہزاروں روپے کے گیس بل بھی بھیج دیے گئے ہیں جو انتہائی ظلم اور نا انصافی و زیادتی ہے۔