امت رپورٹ :
تحریک انصاف کے مزید ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پینتیس ارکان کے استعفے منظور کیے تھے۔ جس کے فوری بعد الیکشن کمیشن پاکستان نے ان ارکان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ یہ پیش رفت پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں واپسی کا اشارہ دینے کے ایک دن بعد سامنے آئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے ایوان زیریں میں واپسی کے ارادے کو اگرچہ نگراں سیٹ اپ کی تشکیل سے جوڑا تھا۔ تاہم اس کا ایک اور اہم مقصد وزیر اعظم شہباز شریف سے اعتماد کا ووٹ لینے کے موقع پر اسمبلی میں اپنی موجودگی یقینی بنانا بھی تھا۔ تاکہ ’رن آف الیکشن‘ میں مقابلہ کیا جا سکے۔
پی ٹی آئی کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم سمیت حکومت کی چند دیگر اتحادی پارٹیاں ڈانوا ڈول دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسے میں صدر عارف علوی، وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتے ہیں تو وہ اپنی اکثریت ثابت نہیں کر پائیں گے۔ جس کے لئے تین سو بیالیس کے ایوان میں ایک سو بہتر ووٹوں کی ضرورت ہے۔ یوں معاملہ ’رن آف الیکشن‘ کی طرف جائے گا۔
واضح رہے کہ اگر وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لینے سے قاصر رہے تو پھر نئے قائد ایوان کے لیے ’رن آف الیکشن‘ کرایا جاتا ہے۔ یعنی ایوان میں موجود مجموعی ارکان کے زیادہ ووٹ جس امیدوار کو ملیں۔ اسے وزیراعظم منتخب کر لیا جاتا ہے۔ تاہم وزیر اعظم شہباز شریف کو گھر بھیجنے سے متعلق منصوبے کے خلاف ’’جارحانہ دفاعی حکمت عملی‘‘ اپنا کر اتحادی حکومت نے عمران خان کا خواب چکنا چور کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم ذرائع کے مطابق عمرانی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے مختلف آپشنز پر مشاورت کا سلسلہ جاری تھا۔
بعد ازاں بڑی تعداد میں پی ٹی آئی ارکان کے مزید استعفے منظور کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس حکمت عملی کو حتمی شکل دینے سے پہلے لندن میں نواز شریف کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ وہاں سے منظوری ملتے ہی اسپیکر کو گرین سگنل دے دیا گیا۔ استعفوں کی منظوری کے لیے ایسے ارکان پر فوکس کیا گیا۔ جو کئی بار میڈیا میں اپنے استعفوں کی تصدیق کر چکے تھے۔ تاکہ معاملہ عدالت میں جانے کی صورت میں اسپیکر کا کیس مضبوط ہو۔ ان میں سے بیشتر ارکان وقتاً فوقتاً اسپیکر کو للکارتے بھی رہتے تھے کہ وہ ان کا استعفی منظور کیوں نہیں کرتے؟
ان ذرائع کے بقول حکومت نے یہ حکمت عملی اپنا کر ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ اول یہ کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو اِن ہاؤس تبدیلی کے ذریعے گھر بھیجنے کے مجوزہ پی ٹی آئی منصوبے کو ناکام بنانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ دوئم، اس معاملے پر ایم کیو ایم سمیت دیگر اتحادیوں پارٹیوں کی ممکنہ بلیک میلنگ سے بچنے کا راستہ بھی ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ اب اگر صدر علوی کے کہنے پر وزیر اعظم شہباز شریف اعتماد کا ووٹ لینے سے قاصر رہتے ہیں اور معاملہ ’رن آف الیکشن‘ کی طرف جاتا ہے تو ایوان میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی پارٹی قاف لیگ کسی صورت اپنی برتری ثابت نہیں کر سکیں گی۔
واضح رہے کہ قاف لیگ کے تین ارکان چوہدری سالک حسین، طارق بشیر چیمہ اور مس فرخ خان بھی چوہدری پرویز الٰہی کے بجائے وفاقی حکومت کے اتحادی چوہدری شجاعت کے ساتھ ہیں۔ یوں عمران خان کے وفادار پرویز الٰہی کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد بھی محض دو رہ گئی ہے۔ مس فرخ خان خواتین کی مخصوص سیٹ پر قاف لیگ کی ایم این اے بنی تھیں۔ حال ہی میں لیک ہونے والی آڈیو میں حسین الٰہی اور چوہدری وجاہت ان کو ہی غائب کرنے کا ذکر کر رہے ہیں۔ تاکہ وہ شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ نہ ڈال سکیں۔ ذرائع کے بقول خاص طور پر لیک شدہ آڈیو میں وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف منصوبہ بندی کا علم ہونے پر حکومت نے اس معاملے کو زیادہ سنجیدگی سے لیا اور سرپرائز اٹیک کا فیصلہ کیا۔ یہ پیش رفت پی ٹی آئی کے لئے کتنی غیر متوقع تھی۔ اس کا اندازہ بلند ہونے والی چیخوں سے ہو رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی نے اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار یوں کیا ’’پینتیس استعفوں کی منظوری، نظام کے ساتھ کھلواڑ ہے‘‘۔ جب کہ فرخ حبیب کا کہنا تھا ’’پینتیس استعفے منظور کرنے کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہے‘‘۔
پی ڈی ایم ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے پینتیس ارکان کے استعفے منظور کرکے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’رن آف الیکشن‘ جیسی ممکنہ صورت حال میں ایوان میں پی ٹی آئی اور قاف لیگ کے ارکان کی تعداد ستّر سے بہتّر تک محدود رہے۔ یعنی حکومتی ایم این ایز کے مقابلے میں تعداد نصف سے بھی کم ہو۔ حتیٰ کہ اگر حکومت کی کوئی اتحادی پارٹی بھی ٹوٹ کر مخالفین سے جا ملے۔ تب بھی کوئی فرق نہ پڑے۔
واضح رہے کہ شہباز شریف ایک سو چوہتّر ووٹ لے کر وزیر اعظم بنے تھے۔ یوں انہوں نے مطلوبہ ایک سو بہتّر سے دو ووٹ زیادہ لیے تھے۔ انہیں یہ برتری تاحال ہے۔ تاہم نئے سیناریو میں اگر ایم کیو ایم اور بلوچستان کی اتحادی پارٹیاں حکومت کا ساتھ چھوڑتی ہیں تو وہ ممکنہ طور پر اعتماد کا ووٹ نہیں لے پائیں گے۔ لیکن قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد مزید کم ہو جانے کے سبب ’رن آف الیکشن‘ کے مرحلے میں شہباز شریف وزارت عظمٰی بچانے میں کامیاب رہ سکتے ہیں۔ پی ڈی ایم ذرائع کے بقول سو فیصد ’’سیو سائیڈ‘‘ کے پیش نظر ہی پی ٹی آئی کے مزید ارکان کے استعفے منظور کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔
یاد رہے گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے بعد پارٹی کے ایک سو تئیس ارکان قومی اسمبلی نے اجتماعی استعفیٰ دیا تھا۔ تاہم اسپیکر نے ان استعفوں کو منظور کرنے کے لیے ارکان کو فرداً فرداً آکر تصدیق کرنے کی شرط رکھی تھی۔ جس سے پی ٹی آئی راہ فرار اختیار کرتی رہی۔ بعد ازاں حکومت نے مرحلہ وار استعفوں کی حکمت عملی طے کی۔ پہلے مرحلے میں اسپیکر نے گیارہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفی منظور کیے اور اب مزید پینتیس ارکان کے استعفے منظور کیے گئے ہیں۔ یوں منظور شدہ استعفوں کی مجموعی تعداد چھیالیس ہوگئی ہے۔ ستّتر ارکان کے استعفے منظور کیے جانے باقی ہیں۔ جب کہ ان میں سے کئی کے منحرف ہونے کی اطلاعات ہیں۔
راجہ ریاض، نور عالم خان اور چند دیگر پہلے ہی عمران خان کو داغ مفارقت دے چکے ہیں۔ اگر آنے والے دنوں میں مزید بیس پچیس ارکان کے استعفے منظور کرلیے جاتے ہیں تو پھر پی ٹی آئی کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کو اِن ہاؤس تبدیلی کے ذریعے گھر بھیجنے کا منصوبہ بالکل ہی ناقابل عمل ہو جائے گا۔