افتتاحی اجلاس کی صدارت اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار سبطین خاں کریں گے، فائل فوٹو
افتتاحی اجلاس کی صدارت اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار سبطین خاں کریں گے، فائل فوٹو

’’پنجاب میں نگراں وزیراعلیٰ پر ڈیڈ لاک برقرار‘‘

نواز طاہر:
پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کی تقرری پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ پہلا مرحلہ مذاکرات کے بغیر پارلیمان کے پاس پہنچا ہے اور معاملہ آئندہ بھی ڈیڈ لاک کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جس کے بعد یہ معاملہ حتمی مرحلے میں الیکشن کمیشن کے پاس جاتا دکھائی دے رہا ہے اور محسن رضا نقوی کے نگران وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔

واضح رہے کہ غیرجانبدار نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کا طریقِ کار آئین میں وضع کردیا گیا ہے۔ جس کے تحت پہلے مرحلے میں آئین کے تحت تحلیل ہونے والی اسمبلی کے قائد ایوان چودھری پرویز الٰہی اور قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز میں مذاکرات کیلئے ایک جملے کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔ دونوں فریقین نے گورنر محمد بلیغ الرحمان کو نام بھجوا دیئے ہیں۔

گورنر نے ان ناموں پر مشاورت کیلیے فریقین کو وقت دیا۔ مگر یہ وقت ضائع ہوگیا۔ جس طرح گورنر نے ایک خط چوہدری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کو اتفاقِ رائے کیلیے میٹنگ کی غرض سے لکھا تھا۔ ویسا ہی ایک خط اسپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان کو بھی ارسال کیا اور اپنی آئینی ذمہ داری ادا کردی۔ اب گورنر اس ضمن میں مزید کردار کے حامل نہیں رہے اور یہ معاملہ پارلیمان کی کمیٹی نے طے کرنا ہے۔ جس میں دونوں جانب سے تین تین کی یکساں تعداد میں چھ ارکان پر مشتمل کمیٹی نے وہ کردار ادا کرنا ہے۔ جو پہلے گورنر، وزیراعلیٰ اور قائدِ حزبِ اختلاف نے ادا کرنا تھا۔

گزشتہ روز (بدھ کو) پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا پہلا روز تھا۔ لیکن اس روز بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ کمیٹی کا نوٹیفیکیشن تک بھی نہیں کیا گیا۔ بدھ اور جمعرات کی درمیان شب رات آٹھ بجے تک اسمبلی کے ریکارڈ میں صرف اسمبلی کی تحلیل تک کا نوٹیفیکیشن موجود تھا۔ اس کے بعد کسی کمیٹی کی تشکیل کے ضمن میں نہ تو کوئی نوٹیفکیشن موجود تھا اور نہ ہی جاری ہونے کی تصدیق ہوسکی تھی۔ جبکہ غیر سرکاری طور پر کمیٹی کے اراکین کی نامزدگی ہوچکی ہے۔

بدھ کو اسپیکر نے صرف ایک جملے میں کمیٹی کے حوالے سے بات کی کہ ’میں نے انتظار کیا ہے۔ کوئی میرے پاس نہیں آیا۔ میں نے خود تو کسی کے پاس نہیں جانا‘۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے ایک سیاسی نام بھی دیا گیا۔ وہ سابق وزیر صحت نصیر خان ہیں۔ جو پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور وزیر صحت بنے تھے۔ لیکن دوسری جانب سے شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے محسن رضا نقوی کو تجویز کیا گیا ہے۔ جبکہ ایسا ہی ایک نام ماضی میں مسلم لیگ ’ن‘ کی جانب سے نجم سیٹھی کا دیا گیا تھا اور ان پر تحریکِ انصاف کو تحفظات تھے۔

البتہ سنہ دو ہزار اٹھارہ میں غیر سیاسی نام پروفیسر حسن عسکری کا بھی آیا تھا اورانہیں نگران وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔ جو سیاسی نہیں بلکہ ٹیکنو کریٹ تھے۔ ویسے ہی محسن رضا نقوی بھی ٹیکنوکریٹ ہیں۔ باقی جتنے نام تجویز کیے گئے۔ ان کا تعلق بیورو کریسی سے ہے۔ جبکہ محسن نقوی پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں صدر آصف علی کے قریبی حلقے میں شامل ہوگئے۔ ان کے قریبی حلقوں کے مطابق سینئر صحافی سید عباس اطہر اور محسن نقوی ہی چوہدری پرویز الٰہی کو آصف علی زرداری کے بہت قریب لائے اور وہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ڈپٹی پرائم منسٹر بنے تھے۔

پنجاب اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کیلئے وزیر اعلیٰ کی جانب سے سابق سینئر وزیر میاں اسلم اقبال، سابق وزیر قانون محمد بشارت راجہ اور سابق وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت شامل ہیں۔ اس کے برعکس قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہباز چونکہ بیرون ملک ہیں اور ان کی نامزد مجاز نمائندے ملک محمد احمد خان نے پارلیمانی کمیٹی کیلئے تجویز کیے جانے والے ناموں میں پیلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ، سابق وزیر خوراک ملک ندیم کامران شامل ہیں۔

مختلف ذرائع سے ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق دونوں جانب سے تجویز کیے جانے والے ناموں میں سے کمیٹی کے اراکین ممکنہ طور پر محسن رضا نقوی پر متفق ہو سکتے ہیں۔ لیکن ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے محسن رضا نقوی پر تحفظات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر صورت میں انہی کے نامزد کردہ ناموں میں سے ہی کسی کا چنائو ہو۔ لیکن ان کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کے معاملات اور سوچ عمران خان سے مختلف ہے۔

ذرائع کے مطابق اگرچہ پارلیمانی کمیٹی میں سینئر اراکین اسمبلی موجود ہیں۔ لیکن یہاں پر اتفاقِ رائے بھی ’سیاسی‘ ہار جیت کا معاملہ ہے اور بالآخر فیصلہ الیکشن کمیشن میں ہونا ہے۔ جہاں معاملات کی دیکھ بھال اور جائزے میں سب سے کم مخالفت محسن رضا نقوی کی سامنے آنے کا امکان ہے اور الیکشن کمیشن فائلوں کا جائزہ لیکر دستیاب لسٹ میں سے کم متنازع ہونے پر محسن نقوی کا نام فائنل کرسکتا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن کے بارے میں سخت رویہ رکھنے والی پی ٹی آئی کی جانب سے پہلی بار باضابطہ طور پر ایڈیشنل ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات حسان خاور کے ذریعے الیکشن کمشن پر اعتماد کا اظہار سامنے آیا ہے۔