احمد خلیل جازم :
قومی اسمبلی نے توہین صحابہؓ پر سزائوں میں اضافے کا بل منظور کرلیا اور توہین کے مرتکب کے لیے سزا تین سے سال سے بڑھا کر دس برس کردی ہے۔ یہ بل ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدلاکبر چترالی نے پیش کیا۔ جس کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ توہین صحابہؓ بل گزشتہ دس ماہ سے قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے انتظار میں تھا اور مولانا عبدالاکبر چترالی مسلسل نو، دس ماہ سے اسے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہے۔
یہ بل پہلے سے ہی تعزیرات پاکستان کا حصہ تھا۔ جس میں عام پاکستانی کی توہین کی سزا تو پانچ برس تھی۔ لیکن صحابہ کرامؓ کی توہین کی سزا تین برس تھی۔ اس حوالے سے مولانا چترالی اب سوشل میڈیا پر بھی توہین صحابہؓ، امہات المومنینؓ و اہلبیتؓ کی شان میں توہین کیخلاف ایک بل لانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ کیوں کہ سوشل میڈیا اس حوالے سے بہت بے لگام ہوچکا ہے۔
توہین صحابہؓ بل کے حوالے سے متحدہ مجلس عمل کے ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’دیکھیں، یہ بل پہلے سے ہی تعزیرات پاکستان کا ایک حصہ ہے جس میں عام انسان یا عام پاکستانی، یعنی آپ یا میں یا کوئی بھی اور شخص جس کی کوئی دوسرا شخص توہین کرتا تھا تو اس کی سزا پانچ برس تھی۔ لیکن جو شخص صحابیؓ، صحابیہؓ یا امہات المومنینؓ کی توہین کا مرتکب ہوتا تو اس کے لیے سزا فقط تین برس تھی اور یہ سزا دیکھا جائے تو خود توہین تھی۔ ہم نے اسی بل میں ترمیم کرائی کہ جو کوئی بھی صحابہ کرامؓ کے بارے میںکوئی گستاخی کرے تو اس کی سزا عمر قید ہے۔
اگرکوئی یہ کہے کہ میرے الفاظ اتنے سخت نہیں تھے، مجھے عمر قید کی سزا نہیں ہونی چاہیے توکم ازکم ایک صحابیؓ کی توہین کی زمرے میں آنے والی سزاکی قید دس برس ہو۔ چنانچہ اسی بنیاد پر یہ بل سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی سے بھی متفقہ طور پر پاس ہوا۔ کسی ایک شخص نے بھی مخالف نہیں کی۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ صحابہ کرامؓ وہ ہستیاں ہیں، جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ ’اگر تم ان جیسا ایمان لائو گے تو تم ہدایت پائو گے‘، تو اس کا مطلب ہے اسلام جو درست حالت میں ہم تک پہنچا ہے۔ وہ انہی ہستیوں کی مرہون منت ہے۔ پھر جو کلمہ ہم تک پہنچا ہے۔ وہ بھی انہی کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے اور ہم مسلمان ہوئے۔ اب اگر کوئی ان ہستیوں کی شان میں توہین یا گستاخی کرے تو بحیثیت مسلمان ہم میں سے کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں جو دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں۔ ان کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر حضرت عائشہؓ اور دیگر صحابہؓ کے خلاف جو ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے۔ اس کا سدباب اسی بل سے ہوسکتا ہے، تو سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے متفقہ طور پر اسے پاس کیا۔ یہ بل دس ماہ سے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی سے پاس ہوچکا تھا، لیکن قومی اسمبلی میں ٹیبل نہیں ہورہا تھا۔ میں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا اور مسلسل جہدوجہد کرتا رہا۔ الحمد للہ یہ کوششیں باور ثابت ہوئیں اور ایک ہفتہ قبل مجھے لیٹر ملا کہ ہم نے اسے اسمبلی میں منظوری کے لیے بھیج دیا ہے۔ میں اسی روز دیگر تمام امور چھوڑ کر اس بل کی منظوری کے لیے آگیا۔ میں نے اس حوالے سے ارکان قوم اسمبلی سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اس بل کے بارے میں قائل کیا۔ انہوں نے مجھے اس کی حمایت کا یقین دلایا۔ لیکن یہ بھی ساتھ کہا کہ اس کی تشہیر زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اسے پیش کرنے تک انتظار کریں۔ ہم اسے پاس کرادیں گے۔ چنانچہ منگل کو یہ بل متفقہ طور پر پاس ہوگیا۔ اب یہ دو چار روز میں سینیٹ میں پاس ہونے کے لیے بھیجا جائے گا۔ وہاں ابھی کام باقی ہے۔ لیکن وہاں ہمارے جمعیت و جماعت کے ساتھی موجود ہیں۔ ان سے مشاورت مکمل ہو چکی ہے۔ ان کے ذریعے میں اسے سینیٹ میںجمع کرائوں گا۔ وہ اس کی بھرپورحمایت کریں گے۔
سینیٹ نے اسے نوے روز کے اندر اندر پاس کرنا ہوگا۔ اگر نوے دن میں پاس نہیں ہوتا، تو اس کا ایک اور طریقہ ہے کہ پھر میں قومی اسمبلی کے اسپیکر سے درخواست کروں گا کہ اس بل کو جوائنٹ سیشن پیش کریں۔ پھر یہ جوائنٹ سیشن میں پاس ہوگا۔ اس کے نفاذ کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے تو اس میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ کیوں کہ قانون تو پہلے سے موجود ہے۔ ہم نے تو صرف سزائوں میں اضافہ کیا ہے تاکہ کوئی بھی شخص صحابہ کرامؓ کے بارے میں کوئی غلط لفظ زبان سے نکالنے سے پہلے ہزار بار سوچے کہ قانون میں اس کی کم از کم سزا عمر قید ہے۔ حکومت اگر چاہے تو یہ فوری طور پر ایکٹ بن جائے گا اور پھریہ نافذالعمل ہوگا۔ اب آپ نے اقلیتوں کے بارے پوچھا ہے تو، انہیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ ابھی تک کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ دیکھیں توہین کسی کی بھی ہو۔ چاہے جس مذہب کا کوئی پیروکار ہوگا۔ ان کی مقدس ہستیاں ہیں۔ ان کے خلاف بھی توہین نہیںہونی چاہیے۔ انسانیت کی توہین نہیں ہونی چاہیے۔
میرے خیال میں تو کوئی فرقہ بھی ایسے بل کی مخالفت کرنے کا نہیں سوچے گا، جس میں انسانیت کی توہین کی جائے۔ اب آپ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی بات کی تو وہاں تو اس صورت میں کوئی بل جاتا ہے، جس پر کسی کو اختلاف ہو۔ اگر اختلاف ہو تو میں خود کہتا ہوں کہ اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجیں۔ لیکن اس پر تو کسی کو اختلاف ہی نہیں ہے تو اسلامی نظریاتی کونسل میں لے جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کسی بھی اقلیت یا فرقے کے مذہبی جذبات اس بل سے مجروح نہیں ہو رہے۔ اسی لیے اختلاف کی گنجائش ہی نہیں نکلتی تھی۔ اس بل کے بعد میری کوشش ہوگی کہ پاکستان میں سوشل میڈیا بہت بے لگام ہو چکا ہے۔
اس حوالے سے ایک بل اور لانا چاہتا ہوں تاکہ اس کا دائرہ کار وہاں تک پھیلے۔ یہ کسی قانون اور رول کے خود کو پابند نہیں سمجھتے۔ آپ بھی دیکھتے ہوں گے کہ وہاں کیا کچھ نہیں لکھا جارہا۔ یا کیسی بے حیائی پھیلی ہوئی ہے۔ پھر میں نے ٹی وی چینلز کے حوالے سے بھی توجہ دلائو نوٹس دیا ہے۔ وہ بھی کمیٹی میں ہے۔ پیمرا سے بھی بات ہوئی ہے۔ انہوں نے بھی اس حوالے سے قانون بنانے کی سفارش کی ہے۔ تاکہ وہاں سے بھی بے حیائی کو روکا جائے۔ صحابہ کرامؓ کا قومی سطح پر اگر دن منایا جاتا ہے تو وہ مستحاب میں سے ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ جو بل تھا یہ ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ اور میں نے اسی فرض کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ جسے اللہ نے عزت بخشی اور یہ قومی اسمبلی سے متفقہ طورپر منظور ہوا‘‘۔