سجادعباسی
سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے قیادت سے ناراضی اور پارٹی چھوڑنے کی خبروں کی تردید کردی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ نواز لیگ کے اندرونی حلقے پارٹی کے اندر ایک ایسے ہم خیال گروپ کی موجودگی کی تردید نہیں کر رہے جو قیادت کے بعض فیصلوں سے نالاں ہے۔ اس حوالے سے جن لیگی رہنماؤں کے نام لئے جا رہے ہیں ان میں سرفہرست شاید خاقان عباسی کا نام ہے ،جبکہ دیگر لوگوں میں فارغ کئے گئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور سعد رفیق کے نام شامل ہیں۔
فی الوقت شاہد خاقان عباسی کی پارٹی قیادت کےبعض فیصلوں پر ناراضی اور ممکنہ علیٰحدگی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے جسے کاؤنٹر کرنے کے لیے گزشتہ روز لیگی رہنما کو خود ٹی وی چینل پر آ کر یہ بتانا پڑا کہ وہ پارٹی میں ہی شامل رہیں گے اور یہیں سے "گھر ” جائیں گے تاہم ان کے لب و لہجے اور باڈی لینگویج سے اندازہ ہو رہا تھا بعض معاملات پر وہ تحفظات کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ دو روز پہلے تحریک انصاف کے سابق رہنما فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کے پارٹی قیادت سے اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں اور وہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی قیادت کے بعض فیصلوں پر تنقید کرتے رہے ہیں ، اور خاص طور پر شریف خاندان کے مطلق تسلط سے نالاں ہیں ،جس کی وجہ سے انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت جلد اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ فیصل واوڈا نے تو شاہد خاقان عباسی کے قیادت سے اختلافات کی وجوہات کی مزید تفصیل نہیں بتائی تاہم نوازلیگ کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ لگی لپٹی رکھے بغیر پارٹی اجلاسوں میں کھل کر رائے دینے والے سادہ مزاج سابق وزیراعظم گزشتہ کئی ماہ سے خاصے ریزرو نظر آ رہے ہیں اور پہلے کی طرح میڈیا ٹاک شوز میں حکومت کا دفاع کرنے سے گریزاں ہیں۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کا شمار ان چند لیگی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے حامی نہیں تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت مقبولیت کی نچلی ترین سطح پر تھی جسے ہٹا کر ایک طرف مظلوم بنا دیا گیا تو دوسری جانب اس کے گناہ نواز لیگ نے اپنے سر لے لیے جس کے نتائج ہمیں ایک سال بعد الیکشن میں بھگتنا ہوں گے۔ کچھ اسی طرح کی سوچ خود میاں نواز شریف کی تھی تاہم بعض "ناگزیر” وجوہات کی بنا پر انہیں قائل کر لیا گیا کہ اگر اس وقت نواز لیگ نے عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو اگلے دس برس کے لیے پارٹی اقتدار کی سیاست سے باہر ہو جائے گی۔
سو خواہی نہ خواہی کے مصداق نواز لیگ نے اتحادیوں سے مل کر اقتدار سنبھالا تو اہم ترین چیلنج معیشت کی بحالی کا تھا ،جس میں اہم ترین کردار وزیر خزانہ کا ہوتا ہے۔اس منصب کے لئے مفتاح اسماعیل کا انتخاب کیا گیا جو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کے رکن اور قریبی معتمد رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اصرار کے باوجود شاہد خاقان خود شہباز کابینہ میں اس لیے شامل نہیں ہوئے کہ انہوں نے مفتاح اسماعیل کو اہم وزارت کے لئے پیش کر دیا تھا۔مفتاح نے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافے سمیت کئی مشکل فیصلےاپنے سر لے کرایک طرف عالمی مالیاتی اداروں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی تو دوسری جانب عوام اور میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا کیا۔
اس دوران مہنگائی اور ڈالر کی قیمت نئی بلندیوں کو چھونے لگی اور روپیہ پاتال کی جانب سفر کرنے لگا تو لیگی قیادت نے اسحاق ڈار کی جادوئی چھڑی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جو پہلے ہی مفتاح اسماعیل کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے جسے شاید خاقان عباسی بالواسطہ طور پر خود پر تنقید تصور کررہے تھے اور ایک آدھ بار انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اسحاق ڈار معیشت ٹھیک کر سکتے ہیں تو لندن میں بیٹھ کر بیان دینے کے بجائے پاکستان آ جائیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پھر جس طرح مفتاح اسماعیل کو تضحیک آمیز انداز میں فارغ کرکے اسحاق ڈار کو پروٹوکول کے ساتھ لایا گیا اس پر بھی شاید خاقان عباسی ناراض تھے۔
سونے پر سہاگہ یا جلتی پر تیل کا کام چند روز پہلے مریم نواز کو پارٹی کی سینئر نائب صدر بنانے اور تنظیم سازی کی ذمہ داری سونپنے کے فیصلے نے کیا اور اس معاملے میں سینئر نائب صدر کے عہدے پر متمکن شاہد خاقان عباسی سمیت کسی سینئر رہنما سے مشاورت کی زحمت نہیں کی گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں مفتاح اسماعیل کے علاوہ خواجہ سعد رفیق اور چند دیگر رہنما بھی شاید خاقان عباسی کے ہم خیال ہیں۔ سعد رفیق کی گزشتہ دنوں ایک ورکرز کنونشن میں کی گئی تقریر کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے جس میں انہوں نے "سیاسی جماعتوں” میں دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرنے اور موروثی سیاست کو فروغ دینے کے عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بعض لوگ اس مبینہ ناراض گروپ کے مستقبل کو حال ہی میں شروع ہونے والی اس سرگرمی سے بھی جوڑ رہے ہیں جس کے تحت شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، مصطفی نواز کھوکھر ، لشکری رئیسانی سمیت مختلف الخیال جماعتوں کی ہم خیال شخصیات ملک بھر میں اہم قومی امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے سیمینار اور کنونشن منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں نے شاہد خاقان عباسی کی مبینہ ناراضگی کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور ان میں سے ایک کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو ڈھائی برس پہلے طاقتور حلقوں کی جانب سے لیگی قیادت کو یہ پیغام دیا گیا تھاکہ شریف خاندان اہم ترین پوزیشن سے دستبردار ہو کر شاہد خاقان عباسی کے ہاتھ مضبوط کرے، جبکہ ایک اور تجزیہ کار کے مطابق شہباز شریف کی جگہ شاہد خاقان کو ہی وزیر اعظم بنانے کی تجویز تھی جسے لندن سے سندِ قبولیت نہیں مل سکی۔ تاہم شاہد خاقان عباسی کے سیاسی اور خاندانی پس منظر سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا شمار سیاستدانوں کے جاہ طلب اور موقع پرست طبقے میں نہیں ہوتا۔ 2017 میں پانامہ کیس میں نااہلی کے بعد میاں نواز شریف نے انہیں بطور وزیر اعظم اپنے جانشین کے طور پر نامزد کیا تھا جس کے لیے انہوں نے کوئی لابنگ نہیں کی تھی، جب کہ اس فیصلے پر لا بنگ کرنے والے کئی رہنما دنگ رہ گئے تھے۔ پھر 2018 کے الیکشن میں مخصوص وجوھات کی بنا پر شاہد خاقان عباسی مری کے اپنے آبائی حلقے سے ہار گئے تو نواز شریف نے انہیں لاہور سے ضمنی الیکشن میں جتوایا جس پر وہ پارٹی قیادت کے احسان مند ہیں۔ تاہم اپنے خاص مزاج اور صاف گوئی کی عادت کے پیش نظر اختلاف رائے کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1999 میں مشرف حکومت نے جب نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کیس بنایا تو شاہد خاقان عباسی چیئرمین پی آئی اے کے طور پر ان کے "شریک ملزم” تھے، شریف برادران بعدازاں معاہدے کے تحت جدہ ہجرت کر گئے تاہم شاہد خاقان عباسی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور مشرف حکومت کی ترغیبات کے بدلے کسی قسم کی رعایت لینے سے انکار کر دیا۔ یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں کہ عمران خان کے دور حکومت میں بدترین حالات میں بہادری سے جیل کاٹنے والوں میں شاہد خاقان عباسی سرفہرست تھے۔اس دوران بھی رعایات اور معافی کےلئے انہیں پیش کشیں ہوتی رہیں مگر انہوں نے شکوہ زباں پر لائے بغیر استقامت سے حالات کا سامنا کیا اور اب تک نیب مقدمات بھگت رہے ہیں۔
مگر یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں گےکہ میاں نواز شریف کو اقتدار کی سیاست میں لانے کا سہرا جہاں سابق گورنر پنجاب اور اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دوست جنرل جیلانی کے سر جاتا ہے، اس سے بڑھ کر اس "کارخیر” میں حصہ ضیاء الحق کابینہ کے ایک اہم رکن خاقان عباسی کا ہے جو شاہد خاقان عباسی کے والد محترم تھے۔