عمران خان :
نوجوانوں کو گمراہ کرنے والے متنازع و مفرور اینکر وقار ذکا کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے کروڑوں کے بٹ کوائن اسکینڈل میں ملوث وقار ذکا کے دائمی وارنٹ جاری کروا کر انٹر پول کے ذریعے واپس ملک لانے کی تیاری شروع کردی گئی۔ وقار ذکام کو مذکورہ کیس میں ریلیف دینے والے ایف آئی اے افسران کے خلاف انکوائری کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔ جبکہ ابتدائی کارروائی میں مقدمہ کے سابق تفتیشی افسر کو معطل کرکے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور سابق اعلیٰ افسر کے حوالے سے رپورٹ ہیڈ کوارٹر ارسال کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ متنازعہ اینکر اور ٹی وی میزبان وقار ذکا جو کہ کئی برسوں سے کرپٹو کرنسی کے کاروبار سے منسلک ہیں اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے گمراہ کن معلومات بھی دیتے رہے، گزشتہ برس ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی میں مقدمہ درج ہونے کے دوران سے ہی ملک سے باہر ہیں اور اب تک ان کی واپسی نہیں ہوسکی ہے۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو میں ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ سندھ شہزاد حیدر نے بتایا کہ وقار ذکا کے خلاف مقدمے میں جلد ہی حتمی چالان پیش کردیا جائے گا، جس کے لیے منظوری دی جاچکی ہے۔
عدالت سے ان کے دائمی وارنٹ حاصل کرکے مکمل کیس فائل کے ساتھ انٹر پول کو ارسال کرنے کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس مقدمہ کے بعد تفتیش میں کچھ اہم حقائق سامنے آئے ہیں۔ تاہم چونکہ جس وقت یہ مقدمہ قائم کیا گیا اس وقت ان کی پوسٹنگ اسلام آباد میں تھی اورچند ماہ قبل ہی انہیں کراچی تعینات کیا گیا ہے، اس لئے یہاں آنے کے بعد انہوں نے مقدمہ اور اس میں پیش کئے گئے عبوری چالان کا جائزہ لیا۔ مقدمہ میں بعض اہم نقائص سامنے آنے کے بعد اس کو درست سمت میں چلانے کا آغاز کیا گیا، جس کے نتیجے میں اب صورتحال اس نہج پر پہنچی ہے کہ اب مقدمہ میں حتمی چالان بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق گزشتہ برس کے آغاز میں درج ہونے والے اس مقدمہ میں گزشتہ ہفتے اس وقت اہم پیش رفت ہوئی جب ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سندھ کے افسران کی کوششوں سے کراچی کی مقامی عدالت نے 8 کروڑ 60 لاکھ کے مبینہ کرپٹو کرنسی اسکینڈل میں وقار ذکا کے ایک دفعہ پھر ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کردیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ ایسٹ رمیش کمار کی عدالت میں سماعت کے دوران ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو ہدایت کی گئی تھی کہ وقار ذکا کو پیش کریں اور ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے۔ ’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ برس جب یہ معاملہ انکوائری تک محدود تھا اس وقت مبینہ طور پر انکوائری افسر اور اس وقت کے حکام بالا کی جانب سے وقار ذکا سے بیانات لینے کا جواز پیش کرکے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کے آفس میں متعدد ملاقاتیں کیں۔ اسی وقت ایسی اطلاعات منظر عام پر آنا شروع ہوئیں کہ پہلے وقار ذکا کے جن اکاؤنٹس کو منجمد کیا گیا انہیں ایک آدھ روز کے لئے ڈی سیز یعنی کھلوانے کے بعد دوبارہ سیز کروایا گیا۔ اور اسی دوران ان اکاؤنٹس سے بھاری رقوم کی منتقلی ہوگئی تھی۔
مبینہ طور پر ملنے والے ریلیف کے عوض اس وقت کے ایک اعلیٰ افسر کی جانب سے فرمائش کی گئی تھی کہ وقار ذکائسوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ہینڈلز پر ان کی ٹریڈنگ اور پی آر میں اضافہ کرنے میں معاونت کریں اور ساتھ ہی ماتحت افسران کے ذریعے لین دین کے معاملات بھی طے ہوئے۔
تاہم بعد ازاں درج ہونے والے مقدمہ میں بھی کچھ اس انداز میں ریلیف دیا گیا کہ ایک ہی مقدمہ میں مختلف نوعیت کے جرائم کو ملا کر متعدد دفعات کے تحت ایک پیچیدہ ایف آئی آر درج کی گئی، جسے ایک ماہر قانون دان کئی خامیوں کو عدالت میں اجاگر کر کے مقدمے کو اڑا سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب عبوری چالان پیش کیا گیا تو اس کے بعد عدالت کی جانب سے بھی اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کے افسران کی ناقص تفتیش پر مقدمہ خارج ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔
اس ضمن میں ہونے والی آخری سماعت میں ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے بیان جمع کرایا تھا کہ عدالت کی جانب سے 22 دسمبر کو جاری کئے گئے وارنٹ ملزم تک نہیں پہنچائے جاسکے، کیونکہ امریکہ میں ان کی رہائش کا مقام غیر واضح ہے۔ بعد ازاں ایڈووکیٹ صلاح الدین پنہور نے عدالت میں پیش ہو کر وقار ذکا کے دستخط اور نیویارک میں قائم پاکستانی سفارت خانے سے تصدیق شدہ پاور آف اٹارنی جمع کرادی تھی۔ جبکہ ان کے وکیل نے درخواست جمع کراتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے مؤکل عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ پیشہ ورانہ کام کے سلسلے میں امریکہ میں موجود ہیں لہٰذا ان کو پیش ہونے سے استثنیٰ دیس جائے۔ مجسٹریٹ نے نشاندہی کی تھی کہ ملزم عدالت میں پیش ہوئے ہیں نہ ضمانت کے لیے کسی عدالت سے رجوع کیا۔
ایف آئی اے کے مطابق اس سماعت سے قبل عدالت نے ابتدائی طور پر دسمبر کے آخر میں 8 کروڑ 60 لاکھ روپے کرپٹو کرنسی اسکینڈل میں متنازع اینکر وقار ذکا کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔ جس میں ایف آئی اے نے بتایا تھا کہ فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کی وصولی پر وقار ذکا کے خلاف ایک انکوائری شروع کردی گئی تھی۔ بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ تین برس کے دوران ان کے بینک اکاؤنٹ میں مجموعی طور پر 8 کروڑ 61 لاکھ روپے آئے اور 8 کروڑ 70 لاکھ روپے جاری کیے گئے اور اسی طرح بینک اسٹیٹمنٹ میں انکشاف ہوا کہ ان کے بینکوں میں پیسے بیرونی ترسیلات اور چیک کے ذریعے آئے۔ اس حوالے سے بتایا گیا کہ باہر سے آنے والی رقم خاندان کے مختلف اراکین کے اکاؤنٹس میں انٹرنل ٹرانسفر کے ذریعے نکالی جاتی تھی۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ وقار ذکا سوشل میڈیا کو بظاہر فلاحی مقاصد اور انٹرنیشنل فنڈنگ کے لیے استعمال کرتے تھے، جس کے ذریعے انہوں نے 68 لاکھ حاصل کیے اور بینکوں سے رقم پے آرڈر یا انٹربینک فنڈ ٹرانسفر کے ذریعے نکالی۔ ایف آئی اے نے الزام عائد کیا کہ پبلک ڈیٹا بیس میں درجنوں خبریں، بلاگز اور ویڈیوز پائی گئیں، جس سے وقار ذکار کی کرپٹو کرنسی میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ انکوائری کے دوران بٹ کوائن یا کرپٹو کرنسی سے متعلق پوسٹس ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں پائی گئی، ملزم نے بٹ کوئن جیسی کرپٹو کرنسی کو فروغ بھی دیا۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ بینک اور اداروں کے ریکارڈز کی نقول اور زبانی شواہد کی صورت میں حاصل رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ ملزم بینکوں کے قواعد و ضوابط اور ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی کی تجارت اور فنڈز کی منتقلی اور منافع حاصل کرنے کی غرض سے ورچوئل اثاثوں کے لیے سہولت کاری میں فراڈ اور بددیانتی کرتے پایا گیا۔ مزید بتایا گیا کہ انکوائری شروع کرنے کے بعد ملزم کو طلب کیا گیا تو انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کردیا۔ ایف آئی اے کے مطابق ملزم سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف قابل اعتراض مواد نشر کرنے اور بیانات دینے سمیت سرکاری عہدیداروں کو دھمکانے اور عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے کا بھی مرتکب پایا گیا۔ ایف آئی اے نے کہا کہ وقار ذکا مبینہ طور پر پاکستان الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016، تعزیرات پاکستان، انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2020 اور فارن ایکسچینج ریگیولیشن ایکٹ 1947 کے تحت قابل سزا جرم کے مرتکب ہوا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے موجودہ حکام کے علم میں آیا ہے کہ جس دوران ملزم کی گرفتاری عمل میں آنا تھی اس دوران انہیں ملنے والی ریلیف کی وجہ سے وہ بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوئے۔ جبکہ بھاری ٹرانزیکشنز بھی ممکن ہوسکیں۔ بصورت دیگر اس کیس میں بھاری مالیت کی رقوم کو منجمد کرکے اثاثوں کی صورت میں اٹیچ کیا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت تفتیش سے منسلک رہنے والے افسران کے کردار کے حوالے سے انکوائری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔